منگل، 11 فروری، 2014

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا

میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے راستہ دینا

اجازت ہو تو کہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا

میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرمِ  محبت کا
مگر پہلے خطا پر غور کر لو پھر سزا دینا

قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمعِ تربت کو بجھا دینا

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔