ہفتہ، 22 فروری، 2014

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے

مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے

اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا

اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں

اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے

اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے

میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا

اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں

اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔