جمعرات، 6 فروری، 2014

دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں

دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں

تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں

کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں

کوئی نشے سے کوئی تشنہ لبی سے ساقی
تری محفل میں سبھی لوگ بہکتے جاویں

کبھی اس یارِسمن بر کے سخن بھی سنیو
ایسا لگتا ہے کہ غنچے سے چٹکتے جاویں

ہم نوا سنجِ محبّت ہیں ہر ایک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستاں ہو ، چہکتے جاویں

4 تبصرے:

  1. بہت اعلٰی۔۔۔
    چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
    نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں

    تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
    لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں

    جواب دیںحذف کریں
  2. تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
    لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں

    کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
    منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں

    کوئی نشے سے کوئی تشنہ لبی سے ساقی
    تری محفل میں سبھی لوگ بہکتے جاویں

    ہم نوا سنجِ محبّت ہیں ہر ایک رُت میں فراز
    وہ قفس ہو کہ گلستاں ہو ، چہکتے جاویں


    واہ واہ واہ ۔۔۔۔ کیا اچھی غزل کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔

    بہت خوب ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. انتخاب کو پسند کرنے پر تشکر۔۔۔ :)

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔