اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے
وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے
رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے
نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے
اداس چھوڑ گیا وہ ہر اک موسم کو
گلاب کِھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں