منگل، 4 فروری، 2014

اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے

اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے

وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے

رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے

نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے

اداس چھوڑ گیا وہ ہر اک موسم کو
گلاب کِھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔