جمعرات، 13 مارچ، 2014

ہم دیکھتے ہیں

ہم دیکھتے ہیں

نابیناؤں کے لیے کہی گئی


وہی عالم ہے جو تم دیکھتے ہو

نہیں کچھ مختلف عالم تمہارا

جلائے ہم نے پلکوں پر دیے بھی

نہ چمکا پھر بھی قسمت کا ستارہ

وہی ہے وقت کا بے نور دھارا


وہی سر پر مسلط ہے شبِ‌غم

اندھیرے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں

نہیں ملتی خوشی کی اک کرن بھی

مہ و خورشید گہنائے ہوئے ہیں

یہ کس بستی میں ہم آئے ہوئے ہیں


شکایت ہے تمہیں آنکھوں سے اپنی

یہاں آنکھیں کہاں روشن رفیقو!!

کلی کی آنکھ نم، روتی ہے شبنم

سلگتے ہیں گلوں کے تن رفیقو!!

نظر آتے ہیں گلشن، بن رفیقو!!


جنہیں ہم شعر میں کہتے ہیں جادو

ان آنکھوں کو یہاں نم دیکھتے ہیں

لبوں پر آہ اور زلفیں پریشاں

غزل کو وقفِ ماتم دیکھتے ہیں

ستم کیا کم ہے کہ ہم دیکھتے ہیں؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔