ہم دیکھتے ہیں
نابیناؤں کے لیے کہی گئی
وہی عالم ہے جو تم دیکھتے ہو
نہیں کچھ مختلف عالم تمہارا
جلائے ہم نے پلکوں پر دیے بھی
نہ چمکا پھر بھی قسمت کا ستارہ
وہی ہے وقت کا بے نور دھارا
وہی سر پر مسلط ہے شبِغم
اندھیرے ہر طرف چھائے ہوئے ہیں
نہیں ملتی خوشی کی اک کرن بھی
مہ و خورشید گہنائے ہوئے ہیں
یہ کس بستی میں ہم آئے ہوئے ہیں
شکایت ہے تمہیں آنکھوں سے اپنی
یہاں آنکھیں کہاں روشن رفیقو!!
کلی کی آنکھ نم، روتی ہے شبنم
سلگتے ہیں گلوں کے تن رفیقو!!
نظر آتے ہیں گلشن، بن رفیقو!!
جنہیں ہم شعر میں کہتے ہیں جادو
ان آنکھوں کو یہاں نم دیکھتے ہیں
لبوں پر آہ اور زلفیں پریشاں
غزل کو وقفِ ماتم دیکھتے ہیں
ستم کیا کم ہے کہ ہم دیکھتے ہیں؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں