جمعہ، 14 مارچ، 2014

دکھ فسانہ نہیں ‌کہ تجھ سے کہیں

دکھ فسانہ نہیں ‌کہ تجھ سے کہیں
دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں

آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں‌ کہ تجھ سے کہیں

بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے
دوستانہ نہیں‌ کہ تجھ سے کہیں

ایک تو حرف آشنا تھا مگر
اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

قاصد! ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں‌ کہ تجھ سے کہیں

اے خدا درد دل ہے بخشش دوست
آب و دانہ نہیں‌ کہ تجھ سے کہیں

اب تو اپنا بھی اس گلی میں‌فرازؔ
آنا جانا نہیں‌ کہ تجھ سے کہیں

2 تبصرے:

  1. خوبصورت غزل کا انتخاب کیا ہے بھائی ۔۔۔۔!

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ احمد بھائی۔۔۔ انتخاب کی پذیرائی پر ممنون ہوں۔۔۔ :)

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔