جمعہ، 20 جون، 2014

بڑی آگ ہے، بڑی آنچ ہے، ترے میکدے کے گلاب میں

بڑی آگ ہے،  بڑی آنچ ہے،  ترے میکدے کے گلاب میں
کئی بالیاں ،  کئی چوڑیاں یہاں گھل رہی ہیں شراب میں

وہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ،  وہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے
ترا نام لکھنا کتاب پر،  ترا نام پڑھنا کتاب میں

وہ بدن سخن کا جمال ہے، وہ جمال اپنی مثال ہے
کوئی ایک مصرعہ نہ کہہ سکا، کبھی اس غزل کے جواب میں

یہ نوازشیں یہ عنایتیں، ترا شکر کیسے ادا کروں
سرِ راہ پھول بچھا دیے، مرے آنسوؤں کے جواب میں

مرے زرد پتوں کی چادریں بھی ہوائیں چھین کے لے گئیں
میں عجب گلاب کا پھول ہوں‘جو برہنہ سر ہے شباب میں

یہ دُعا ہے ایسی غزل کہوں ‘کبھی پیش جس سے میں کرسکوں
کوئی حرف تیرے حضور میں‘کوئی شعر تیری جناب میں

نوٹ: پہلے چار اشعار میں نے مشاعرے سے سن کر لکھے ہیں۔ جبکہ آخری دو اشعار جب انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ تو ایک جگہ ملے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔