ہفتہ، 26 جولائی، 2014

ڈاکو

کل رات میرا بیٹے مرے گھر
چہرے پر منڈھے خاکی کپڑا
بندوق اٹھائے آن پہنچا
نوعمری کی سرخی سے رچی
اس کی آنکھیں جان گئی
اور بچپن کے صندل سے منڈھا
اس کا چہرہ پہچان گئی
وہ آیا تھا خود اپنے گھر
گھر کی چیزیں لے جانے کو
ان کہی کہی منوانے کو
باتوں میں دودھ کی خوشبو تھی
جو کچھ بھی سینت کے رکھا تھا
میں ساری چیزیں لے آئی
ایک لعلِ  بدخشاں کی چڑیا
سونے کا ہاتھی چھوٹا سا
چاندی کی اک ننھی تختی
ریشم کی پھول بھری ٹوپی
اطلس کا نام لکھا جزدان
جزدان میں لپٹا اک قرآن
پر وہ کیسا دیوانہ تھا
کچھ توڑ گیا کچھ چھوڑ گیا
اور لے بھی گیا ہے وہ تو کیا
لوہے کی بدصورت گاڑی
پٹرول کی بو بھی آئے گی
جس کے پہیے بھی ربر کے ہیں
جو بات نہیں کر پائے گی
بچہ پھر آخر بچہ ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔