منگل، 15 جولائی، 2014

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں


ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں


ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُ کھ کا صلہ ہے سو کہاں


آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم قرینے سے سِلا ہے سو کہاں


بارہا کوچۂ جاناں سے بھی ہو آئے ہیں
ہم نے مانا کہیں جنت بھی دلا ہے سو کہاں


جلوۂ دوست بھی دُھندلا گیا آخر کو فراز
ورنہ کہنے کو تو غم، دل کی جلا ہے سو کہاں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔