بدھ، 3 ستمبر، 2014

جب ہے دریا تو عصا بھی چاہیے

جب ہے  دریا تو عصا بھی چاہیے
خواہشوں کو راستہ بھی چاہیے

صرف راحت بے  حِسی کا نام ہے
زندگی کو حادثہ بھی چاہیے

پاس ہو تم پھر بھی باقی ہے  حجاب
اِک اِجازت کی ادا بھی چاہیے

سر بلندی ہے  مقدر سے  مگر
کچھ بزرگوں کی دعا بھی چاہیے

کیوں خزانے  کی طرح محفوظ ہو
ذہن کو تازہ ہوا بھی چاہیے

پاؤں پھیلانے  سے  پہلے  دوستو
اپنی چادر دیکھنا بھی چاہیے

برہمی ہے  آپ کو تنقید سے
اور ضد ہے  آئینہ بھی چاہیے

پر ضروری ہیں اُڑانوں کے  لئے
دل میں لیکن حوصلہ بھی چاہیے

آرزوئیں دے  کے  بے  پرواہ نہ ہو
ان چراغوں کو ضیاء بھی چاہیے

لے  کے  نہ ڈوبے  فتح مندی کا غرور
تجھ کو منظؔر ہارنا بھی چاہیے

نوٹ: یہ غزل الف عین سر کی لائبریری میں موجود برقی کتاب "روشنی ضروری ہے" سے لی گئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔