جمعرات، 4 ستمبر، 2014

زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے

زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے
تھوڑی دھوپ جیسی ہے ، تھوڑی چھاؤں والی ہے

پھر لہو میں ڈوبا ہے ، آدمی کا مستقبل
یہ صدی جو آئی ہے ، کربلاؤں والی ہے

سب سے  جھک کے  ملتا ہے ، سب سے  پیار کرتا ہے
یہ جو ہے  ادا اس میں ، یہ تو گاؤں والی ہے

اس کے  ذرے  ذرے  میں ، حسن ہے  محبت ہے
یہ ہماری دھرتی تو اپسراؤں والی ہے

کس کی یاد آئی ہے ، کون یاد آیا ہے
پھر ہماری آنکھوں میں رُت گھٹاؤں والی ہے

موت کی طرف منظؔر بھاگتی ہے  تیزی سے
عمر کتنے  صحت مند ہاتھ پاؤں والی ہے

نوٹ: یہ غزل الف عین سر کی لائبریری میں موجود "منظر بھوپالی" کی برقی کتاب "روشنی ضروری ہے" سے لی گئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔