اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں
ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے
تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے
زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!
زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے گزاریں گے!
آہنی کلیجے کو، زخم کی ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے، اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب!
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے!
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں، بے تھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں،ہم اسے پکاریں گے
ہر دور میں سدا بہار ہے مظبوط حوصلہ اور جینے کی تمنا بڑھ جاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
حذف کریں