منگل، 11 نومبر، 2014

آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے

آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مِرے آئنے میں تھے

ہر بات جانتے ہُوئے دِل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کِس مرحلے میں تھے

وصل و فراق دونوں ہیں اِک جیسے ناگزیر
کُچھ لطف اُس کے قُرب میں، کُچھ فاصلے میں تھے

سیلِ زماں کی موج کو ہر وار سہہ گئے
وہ دن، جو ایک ٹوٹے ہُوئے رابطے میں تھے!

غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہُوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے!

ہِر پھر کے آئے نقطۂ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کِسی دائرے میں تھے

آندھی اُڑاکے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشان اُسی راستے میں تھے

چُھولیں اُسے کہ دُور سے بس دیکھتے رہیں!
تارے بھی رات میری طرح، مخمصے میں تھے

جُگنو، ستارے، آنکھ، صبا، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کِسی سلسلے میں تھے!

جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مِرے مسئلے میں تھے

امجؔد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کِس طرح !
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔