منگل، 18 نومبر، 2014

ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں

ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں

جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں

خدا جانے مری گھٹڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں

یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا
میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں

نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی
کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں

مجھے اس بھیڑ میں لگتا ہے ایسا
کہ میں خود سے بچھڑ کے رہ گیا ہوں

جسے سمجھا نہیں شاید کسی نے
میں اپنے عہد کا وہ سانحہ ہوں

نہ جانے کیوں یہ سانسیں چل رہی ہیں
میں اپنی زندگی تو جی چکا ہوں

جہاں موج حوادث چاہے لے جائے
خدا ہوں میں نہ کوئی ناخدا ہوں

جنوں کیسا کہاں کا عشق صاحب
میں اپنے آپ ہی میں مبتلا ہوں

نہیں کچھ دوش اس میں آسماں کا
میں خود ہی اپنی نظروں سے گرا ہوں

طرارے بھر رہا ہے وقت یا رب
کہ میں ہی چلتے چلتے رک گیا ہوں

وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے
مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں

اگر یہ محفل بنت عنب ہے
تو میں ایسا کہاں پارسا ہوں

غم اندیشہ ہائے زندگی کیا
تپش سے آگہی کی جل رہا ہوں

ابھی یہ بھی کہاں جانا کہ مرزؔا
میں کیا ہوں کون ہوں کیا کر رہا ہوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔