پیر، 15 دسمبر، 2014

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

یہ فوج  نکلتی تھی کہاں خانۂِ  دِل سے
یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا

میں خون بہا کر بھی ہوا   باغ میں رُسوا
اُس گُل نے مگر کام پسینے سے نکالا

ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حقدار تماشائی
اور مارِ سیہ ہم نے دفینے سے نکالا

یہ سوچ کے ساحل پہ سفر ختم نہ ہو جائے
باہر نہ کبھی پاؤں سفینے سے نکالا

جمعہ، 12 دسمبر، 2014

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے
دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے

یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے
ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے

اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے
راہ کا خوف یہ کہتا ہے کہ چلتے رہیے

زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر
روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے

منگل، 9 دسمبر، 2014

وے سائیں تیرے چرخے نے

وے سائیں تیرے چرخے نے
اَج کت لیا کتن والی نوں
ہر اِک مُڈھا پچھی پایا
نہ کوئی گیا تے نہ کوئی آیا
ہائے اللہ اَج کی بنیاں
اِس چھوپے کتن والی نوں

تاک کسے نہ کھولے پِیڑے
نِسل پئے رانگلے پیڑھے
ویکھ اٹیرن باورا ہویا
لبھدا اَتن والی نوں

کسے نہ دِتی کسے نہ منگی
دُوجے کنی واج نہ لنگی
امبر ہس کے ویکھن لگا
اس ٹارے چھتن والی نوں

وے سائیں تیرے چرخے نے
کت لیا کتن والی نوں

شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے

شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے

شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگئ دل پہ جلا ہے

تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اند ازِ گل آغوش کشا ہے

قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟

خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے

مجبوری و دعوائے گرفتارئ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے

اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ِان کردہ گناہوں کی سزا ہے

بیگانگئِ خلق سے بیدل نہ ہو غالب
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے

منگل، 2 دسمبر، 2014

اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے

اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے

عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر
تیری چاہت کو سبوتاژ نہیں کر سکتے

حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے

شہر میں ایک ذرا سے گھر کی خاطر
اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کر سکتے

عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔