ہفتہ، 21 فروری، 2015

جو کوئی آفتِ قتالۂِ جہاں نکلے

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے راز داں نکلے

حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دیرِ راہب میں
تو اہلِ دیر ہمارے مزاج داں نکلے

بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے

سکوتِ شب نے سکھایا ہمیں سلیقۂ  نطق
جو ذاکرانِ سحر تھے وہ بے زباں نکلے

میانِ راہ کھڑے ہیں اس انتظار میں ہم
کہ گردِ راہ ہٹے اور کارواں نکلے

گماں یہ تھا کہ پسِ کوہ بستیاں ہوں گی
وہاں گئے تو مزاراتِ بے نشاں نکلے

افق سے پہلے تو دھندلا سا اک غبار اٹھا
پھر اس کے بعد ستاروں کے کارواں نکلے

کمالِ شوق سے چھیڑا تھا جن کو مطرب نے 
وہ راگ ساز کے سینے سے نوحہ خواں نکلے

رئیؔس حجرہء تاریک جاں کو کھول تو دوں
جو کوئی آفتِ قتالۂِ جہاں نکلے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔