جمعرات، 30 اپریل، 2015

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
موت آن بیٹھی ہے جابجا مچانوں پر

ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی
تہمتیں لگاتے ہیں جاچکے زمانوں پر

اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں
دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر

شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر

کس طرح ہری ہوں گی اعتماد کی بیلیں
جب منافقت سب نے اوڑھ لی زبانوں پر

اتوار، 19 اپریل، 2015

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا
یہ تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہوگا

ریت کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے
جب ہوا تیز چلے گی تو بکھرنا ہوگا

ہر نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی
جانے اب کون سی راہوں سے گزرنا ہوگا

لے کے اس پار نہ جائے گی جدا راہ کوئی
بھیڑ کے ساتھ ہی دلدل میں اترنا ہوگا

زندگی خود ہی اک آزار ہے جسم و جاں کا
جینے والوں کو اسی روگ میں مرنا ہوگا

قاتلِ شہر کے مخبر در و دیوار بھی ہیں
اب ستمگر اسے کہتے ہوئے ڈرنا ہوگا

آئے ہو اس کی عدالت میں تو مخمورؔ تمہیں
اب کسی جرم کا اقرار تو کرنا ہوگا

بدھ، 1 اپریل، 2015

چھوٹی مچھلی

چھوٹی مچھلی
چلو حیدوو (حیدر کو میں پیار سے کبھی کبھی حیدووکہا کرتا ہوں) بہت دیر ہو گئی ہےاور صبح جلدی اٹھنا ہے ورنہ آپ کو سکول سے دیر ہو جاتی ہے نہیں بابا پہلے کہانی سنائیں، حیدوو نے ضد کرتے ہوئے کہا۔  میری تمام کوششیں رائگاں گئیں اور با لآخر  مجھے حیدوو کو کہانی سنانے کے لیے لیٹنا ہی پڑا۔
            کون سی کہانی سناؤں، شیر والی، نہیں بابا شیر والی نہیں، اچھا پھروہ بڑی مچھلی والی، نہیں بابا وہ بھی نہیں( یہ بالکل میری طرح کی ضد کر رہا ہے جیسے میں اپنے بچپن میں کیا کرتا تھا، دل میں سوچتے ہوئے) اچھا بیٹا جلدی بتاؤ آخر کون سی کہانی سننی ہے بابا کو میٹنگ بھی اٹینڈ کرنی ہے سو جاؤ جلدی سے شاباش۔  اچھا بابا شارک والی اور ایک چھوٹی  مچھلی والی۔ اب مرتا کیا نہ کرتا،  خیالات کے بحر میں غوطہ لگایا ، اظہار خیال کے لیے  کچھ مناسب  الفاظ کا چناؤ کیا جن کے جوڑ توڑ سے حیدوو کی پسند کی کہانی مجھے فی البدیہہ ترتیب دینی تھی۔
حیدوو کو کہانیاں سناتے ہوئے اپنا بچپن بھی بخوبی یاد آتا تھا اور اس بات کا بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ چاہےزمانہ کوئی بھی ہو، باپ کو اللہ تعالیٰ  نے اس نعمت سے بخوبی نوازا ہے اور باپ اپنے بچے کے لئے بالوقت کہانیاں ترتیب دے  لیتا ہے،  چاہے پڑھا لکھا ہو یا کسی بھی قابلیت کا مالک ہو۔ اپنے بچے کے لئے کہانی ترتیب دینا، دین اور دنیا کی تمام ترتعلیمات سے بالا ترہے۔
خیر، اب مسئلہ تھا شارک اور چھوٹی مچھلی کا، تو میں نے حیدوو کو کہانی سنانا شروع کی جو کچھ یوں تھی۔
ایک بچہ اپنے بابا سے ضد کر رہا تھا کہ بابا مجھے کشتی میں بیٹھنا ہے۔  جب بچے نے بار بار ضد کی تو ایک دن بچے کے بابا سب گھر والوں کو لے کر سمندر چلے گئے اور ایک کشتی والے سے کشتی کا کرایا وغیرہ طے کر کے کشتی میں بیٹھ کرسمندرکی سیرکو چل پڑے۔ سمندر کے نظا رے بہت ہی خوبصورت تھے۔  سب کشتی سے  پانی کی کٹتی ہوئی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک ایک زور دار جھٹکا  لگا جیسے کوئی چیز کشتی سے ٹکرائی ہو،  سب کچھ دیر کے لئے چونک گئے مگر پھرپانی کے نظاروں میں کھو گئے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پھر ویسا ہی جھٹکا روبارہ لگا اور اس بار شدت اور بھی زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ کشتی کو شارکس نے گھیر لیا ہے اور وہ کشتی میں بیٹھے لوگوں پر حملہ کررہی ہیں۔ پھر کیا ہوا بابا؟ حیدوو نے چونک کر پوچھا۔ بیٹا آنکھیں بند  رکھو  بتاتا ہوں۔ پھر ہوا یوں کہ ایک شارک کی ٹکر سے ان لوگوں کی کشتی میں سوراخ ہو گیا اور پانی اندرکشتی کے اندر آنے لگا۔ کشتی میں بیٹھے سب لوگ ڈر گئے ۔ کوئی رونے لگا اور کوئی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے لگا۔  سب مرد جو کشتی میں موجود تھے وہ کسی طرح پانی کو کشتی کے اندر آنے سے روکنے لگے مگر تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔  یوں لگ رہا تھا کہ اب یہ کشتی ڈوب جائے گے اور تمام لوگ بھی اس کشتی کے ساتھ ہی ڈوب جائیں گے۔ سمندرمیں موجود تمام شارکیں اپنے شکار پر خوش ہو رہی تھیں۔ آس پاس چھوٹی بڑی اور بھی بہت سی مچھلیاں موجود یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ ایک چھوٹی مچھلی نے اپنے آس پاس موجود مچھلیوں سے کہا کیا ہم اس کشتی کو نہیں بچا سکتے؟ سب نے فورا اس چھوٹی مچھلی کو ڈانٹا اور کہا تم اپنے کام سے کام رکھو ہم اتنی چھوٹی مچھلیاں بھلا ان شارکوں کے خلاف کیسے ان کشتی والوں کی مدد کر سکتی ہیں؟ ایک اور مچھلی بولی، ہم نے اسی سمندر میں رہنا ہے، شارک سے دشمنی مول لے کر ہم یہاں نہیں رہ سکیں گی۔ مگر وہ چھوٹی مچھلی اس سب رہن سہن سے ناواقف تھی اور دل میں سچی ہمدردی رکھتی تھی۔ وہ اسی ضد پر اڑی رہی کہ ہمیں کشتی والوں کی مدد کرنی چاہیے۔ وقت بہت کم تھا، ادھر کشتی میں پانی بھرتا جا رہا تھا اور شارکیں اپنے جبڑے کھولے اس انتظار میں تھیں کہ کب کشتی پانی سے بھرے اور کب ہم انسانوں کے گوشت سے لطف اندوز ہوں۔
اس چھوٹی مچھلی کی ہمت کو دیکھ کر ایک دو اور چھوٹی مچھلیاں اس کی حمایت میں بولنا شروع ہو گئی تھیں جس کی تمام جھنڈ والے مخالفت کر رہے تھے- اچانک اس چھوٹی مچھلی نے ہمت کی اور پوری طاقت لگا کر پانی کو چیرتی ہوئی کشتی میں موجود سوراخ میں چھلانگ لگا دی اور اپنی ساتھی مچھلیوں کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ جلدی آؤ ہم مل کر اس سوراخ کو بند کر سکتی ہیں۔ ایک ایک کر کے کئی مچھلیاں کشتی کے سوراخ میں جانے لگیں اور سوراخ آہستہ آہستہ بند ہونے لگا۔ اب کشتی میں پانی جانا کچھ کم ہو گیا تھا اور کشتی کے لوگوں کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ یہ چھوٹی مچھلیاں ہماری مدد کر رہی ہیں۔ شارکوں کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا اور انہوں نے چھوٹی مچھلیوں پر حملہ کر دیا اور ایک ہی وار میں کئی چھوٹی مچھلیوں کو مار ڈالا۔ اب جو مچھلیاں اپنی چھوٹی مچھلیوں کو شارکوں کے خلاف جانے سے منع کر رہی تھیں وہ بھی شارکوں کے خلاف کھڑی ہو گئیں اور یکے بعد دیگرے سوراخ میں جانے لگیں۔ اب کشتی میں موجود لوگوں نے کشتی میں پانی بھرنے کی فکر چھوڑ کر کشتی کنارے کی طرف لے جانی شروع کر دی۔ یہ جدوجہد کافی دیر جاری رہی اور آخر کار شارکوں کی ہار ہوئی حالانکہ شارکوں نے بہت سی چھوٹی مچھلیوں کو مارا اور نقصان پہنچایا مگر جب کشتی کم پانی کی جانب بڑھی تو کشتی میں موجود لوگوں کی بچاؤ  بچاؤ کی آوازیں سن کر اور لوگ دوسری کشتیوں میں مدد کو آ گئے اور کئی شارکوں کو زخمی کر دیا۔ تمام شارکیں کشتی چھوڑ کر بھاگ گئیں کیونکہ کم پانی میں شارکیں باآسانی دیکھی جا سکتی تھیں اور ان کو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا۔
کشتی کنارے پر لگ گئی۔ تمام لوگ بغیر کسی نقصان کے کنارے پر پہنچ گئے۔ مگر وہ چھوٹی مچھلی اور اس کی کئی ساتھی مچھلیاں اس لڑائی میں شدید زخمی ہوئیں اور کچھ کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن اس چھوٹی مچھلی جو سب سے پہلے کشتی میں آئی تھی، سب نے اس کو بہت پیار کیا اور واپس سمندر میں چھوڑ دیا۔ آج اس چھوٹی مچھلی نے وہ کام کیا تھا جو مچھلی کی استطاعت سے بہت زیادہ تھا۔ مگر اس مچھلی کو ہمیشہ یاد رکھا جانے لگا اور کشتی میں سوار ہر انسان نے اپنے جاننے والوں کو اس چھوٹی مچھلی کی بہادری کا واقعہ سنایا۔
حیدوو تو شاید کافی دیر پہلے ہی سو چکا تھا مگرمیرا دماغ ابھی ابھی اخذ کی ہوئی کہانی پر سوچنے پر مجبور ہوگیا کےیہ کسی سمندر کی نہیں بلکہ ہماری روز مرہ کی کہانی ہے۔ ہم بھی اپنے سامنے کسی کو مشکل میں پھنسا دیکھ کر ایسے ہی منہ موڑتے ہیں جیسے اس چھوٹی مچھلی کے غول نے کیا۔ بڑے بڑے مفاد پرست کسی شارک سے کم نہیں جو مظلوم کا ساتھ دینے والوں کو کچا چبا ڈالتے ہیں۔ اس لیے کوئی چاہتے ہوئے بھی مظلوم کا ساتھ دینے سے کتراتا ہے۔ لاکھوں میں کوئی ایک اس چھوٹی مچھلی جتنا بڑا دل اور جذبہ رکھتا ہے۔ فیصلہ ہمارا اپنا ہے، چاہے گمنام زندگی جیتے رہیں اور گمنام موت مر جائیں اور اگلے جہاں میں بھی شرمسار رہیں یا ظالموں کے خلاف مظلوم کا ساتھ دیں اور چھوٹی مچھلی کی طرح گھر گھر محفل محفل کی گفتگو کا حصہ بنیں-
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔