اتوار، 19 اپریل، 2015

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا

چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا
یہ تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہوگا

ریت کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے
جب ہوا تیز چلے گی تو بکھرنا ہوگا

ہر نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی
جانے اب کون سی راہوں سے گزرنا ہوگا

لے کے اس پار نہ جائے گی جدا راہ کوئی
بھیڑ کے ساتھ ہی دلدل میں اترنا ہوگا

زندگی خود ہی اک آزار ہے جسم و جاں کا
جینے والوں کو اسی روگ میں مرنا ہوگا

قاتلِ شہر کے مخبر در و دیوار بھی ہیں
اب ستمگر اسے کہتے ہوئے ڈرنا ہوگا

آئے ہو اس کی عدالت میں تو مخمورؔ تمہیں
اب کسی جرم کا اقرار تو کرنا ہوگا

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔