جمعرات، 30 اپریل، 2015

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر

زہر میں بجھے سارے تیر ہیں کمانوں پر
موت آن بیٹھی ہے جابجا مچانوں پر

ہم برائی کرتے ہیں ڈوبتے ہوئے دن کی
تہمتیں لگاتے ہیں جاچکے زمانوں پر

اس حسین منظر سے دکھ کئی ابھرنے ہیں
دھوپ جب اترنی ہے برف کے مکانوں پر

شوق خود نمائی کا انتہا کو پہنچا ہے
شہرتوں کی خاطر ہم سج گئے دکانوں پر

کس طرح ہری ہوں گی اعتماد کی بیلیں
جب منافقت سب نے اوڑھ لی زبانوں پر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔