منگل، 2 جون، 2015

خزاں کے آخری دن تھے

خزاں کے آخری دن تھے
بہار آئی نہ تھی لیکن
ہوا کے لمس میں اک بے صدا سی نغمگی محسوس ہوتی تھی
درختوں کے تحّیر میں
کسی بے آسرا امید کی لَو تھرتھراتی تھی
گزرگاہوں میں اڑتے خشک پتّے
اجنبی لوگوں کے قدموں سے لپٹتے اور الجھتے تھے
تو اک بھولی ہوئی تصویر جیسے کوند جاتی تھی،
ہر اک منظر کے چہرے پر
لرزتی بے کلی کی ریشمیں چلمن کشیدہ تھی
نظر رستہ نہ پاتی تھی

کچھ ایسا ہی سماں تھا جب
وہ میرے بخت کے صحرا میں ساون کی طرح اتری،
میرے سانسوں میں مہکی تھی
نگاہوں کے ستارے، آرزو کے استعارے تھے،
تمناؤں کے سیلِ شوق میں بہنے لگی تھی وہ
میرے سینے پہ سر رکھ کر اچانک مسکرائی
اور کچھ کہنے لگی تھی وہ
نہ جانے کیا تھا وہ جملہ!
وہ اس کا ادھ کہا جملہ!
جو غنچے کی طرح ان کانپتے ہونٹوں پہ پھوٹا تھا
اسی لمحے کوئی کوئل بڑے ہی درد سے کوکی تھی
وہ جیسے، اچانک نیند سے جاگی تھی
اور اس نے بڑے دکھ سے فلک کی سمت دیکھا تھا
وہ بولی تھی،
"ستارہ شام کا روشن ہوا ہے، اب میں چلتی ہوں!"

خزاں کے آخری دن ہیں
ہوا کے لمس میں اک بے صدا سی نغمگی محسوس ہوتی ہے
کوئی مانوس سی خوشبو میرے کانوں میں کہتی ہے،
پھر اس کے حُسن کا محرم تیرا دل ہونے والا ہے
وہ اس کا ادھ کہا جملہ
مکمل ہونے والا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔