بدھ، 4 نومبر، 2015

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں

مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں

یہاں پہ معراؔج تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگ درا کی قیمت لگا رہے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔