جمعرات، 12 نومبر، 2015

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے

پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے

فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے

آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے

لفظوں میں جذب ہوگیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے اس کو غزل کی مٹھاس دے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔