بدھ، 13 جنوری، 2016

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی​

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی​
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی​
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے​
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے​
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی​
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی​
نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو​
نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو​
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے​
نہ اتنی بے تکلّفی کہ آئینہ حیا کرے​
نہ اختلاط میں وہ رنگ کہ بدمزہ ہوں خواہشیں​
نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں​
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو​
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو​
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن​
کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن​
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی​
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی​
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی​
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی​
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے​
کہ عمر بھر کے ساتھ کو وہ بد تر از ہوس کہے​
شجر حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں​
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں​
محبتوں کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں​
بس ایک در سے نسبتیں سگانِ با وفا میں ہیں​
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں​
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں​
تمہاری سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں​
مجھے وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں​
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی​
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی​
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا​
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا​
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی​
اب اُس کی یاد رات دن؟ نہیں! مگر کبھی کبھی​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔