پیر، 18 جنوری، 2016

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے

مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے

بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے

میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے

اگر یہی تری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے

دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مؤرخ نے 
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے

معرؔاج فیض آبادی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔