پیر، 25 جنوری، 2016

کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے

کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی گرہیں اب باقی ہیں

پاؤں میں پائل
باہوں میں کنگن
گلے میں ہنسلی
کمر بند، چھلّے اور بِچھوے
ناک کان چِھدوائے گئے ہیں
اور زیور زیور کہتے کہتے
رِیت رواج کی رسیوں سے میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

اب چِھلنے لگے ہیں ہاتھ پاؤں
اور کتنی خراشیں اُبھری ہیں
کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی رسّیاں اتری ہیں

اَنگ اَنگ، میرا روپ رنگ
میرے نقش نین، میرے بول بین
میری آواز میں کوئل کی تعریف ہوئی
میری زلف سانپ، میری زلف رات
زلفوں میں گھٹا، میرے لَب گلاب
آنکھیں شراب
غزلیں اور نظمیں کہتے کہتے
میں حُسن اور عشق کے افسانوں میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

میں پوچھوں ذرا
آنکھوں میں شراب دِکھی سب کو
آکاش نہیں دیکھا کوئی
ساون بھادو تو دِکھے مگر
کیا درد نہیں دیکھا کوئی

فن کی جِھلّی سی چادر میں
بُت چِھیلے گئے عریانی کے
تاگا تاگا کر کے، پوشاک اُتاری گئی
میرے جسم پہ فن کی مشق ہوئی
اور آرٹ کا نام کہتے کہتے
سنگِ مرمر میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

بتلائے کوئی، بتلائے کوئی
کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی گرہیں اب باقی ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔