بدھ، 27 جولائی، 2016

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا

اٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا

ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا

اک مکر ہی تھا آپ کا ایفائے عہد بھی
اپنے کہے سے آج مکر بھی گئے تو کیا

ہم تو اسی طرح سے پھریں گے  خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اتر بھی گئے تو کیا

باصؔر تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا

جمعرات، 14 جولائی، 2016

دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا

دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا
ختم ہو جائیں گے رشتے ، رابطہ رہ جائے گا

کرکرا ہو جائے گا میٹھا مزہ الفاظ کا
تلخ لہجے کا زباں پر ذائقہ رہ جائے گا

جھوٹ اک دن بولنے لگ جائیں گی آنکھیں سبھی
اور منہ تکتا ہمارا آئنہ رہ جائے گا

منزلیں بڑھ کر مسافر کے گلے لگ جائیں گی
پاؤں چھونے کو ترستا راستہ رہ جائے گا

بھول جائے گا ہمیں ہر گنگناتا واقعہ
حافظے میں کلبلاتا حادثہ رہ جائے گا

یوں بدن میں بے حسی بیگانگی بس جائے گی
روح سے بھی واجبی سا واسطہ رہ جائے گا

عام ہو جائے گا اتنا سرد مہری کا چلن
منجمد ہو کر خوشی کا قہقہہ رہ جائے گا

ایک نقطے کی کمی عاجزؔ کہیں رہ جائے گی

نامکمل دوستی کا دائرہ رہ جائے گا

بدھ، 13 جولائی، 2016

ایک خواب

ایک خواب


ایک ہی خواب کئی بار یوں ہی دیکھا ہے میں نے
تو نے ساڑی میں اڑس لی ہیں مری چابیاں گھر کی
اور چلی آئی ہے بس یوں ہی مرا ہاتھ پکڑ کر
گھر کی ہر چیز سنبھالے ہوئے اپنائے ہوئے تو

تو مرے پاس مرے گھر پہ مرے ساتھ ہے سونوںؔ

میز پر پھول سجاتے ہوئے دیکھا ہے کئی بار
اور بستر سے کئی بار جگایا بھی ہے تجھ کو
چلتے پھرتے ترے قدموں کی وہ آہٹ بھی سنی ہے

گنگناتی ہوئی نکلی ہے غسل خانے سے جب بھی
اپنے بھیگے ہوئے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی
میرے چہرے پر چھڑک دیتی ہے تو سونوںؔ کی بچی

فرش پر لیٹ گئی ہے تو کبھی روٹھ کے مجھ سے
اور کبھی فرش سے مجھ کر بھی اٹھا یا ہے منا کر
تاش کے پتوں پہ لڑتی ہے کبھی کھیل میں مجھ سے
اور کبھی لڑتی بھی ایسے ہے کہ بس کھیل رہی ہے
اور آغوش میں ننھے کو

اور معلوم ہے جب دیکھا تھا یہ خواب تمہارا
اپنے بسترپہ میں اس وقت پڑا جاگ رہا تھا 
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔