دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا
ختم ہو جائیں گے رشتے ، رابطہ رہ جائے گا
کرکرا ہو جائے گا میٹھا مزہ الفاظ کا
تلخ لہجے کا زباں پر ذائقہ رہ جائے گا
جھوٹ اک دن بولنے لگ جائیں گی آنکھیں سبھی
اور منہ تکتا ہمارا آئنہ رہ جائے گا
منزلیں بڑھ کر مسافر کے گلے لگ جائیں گی
پاؤں چھونے کو ترستا راستہ رہ جائے گا
بھول جائے گا ہمیں ہر گنگناتا واقعہ
حافظے میں کلبلاتا حادثہ رہ جائے گا
یوں بدن میں بے حسی بیگانگی بس جائے گی
روح سے بھی واجبی سا واسطہ رہ جائے گا
عام ہو جائے گا اتنا سرد مہری کا چلن
منجمد ہو کر خوشی کا قہقہہ رہ جائے گا
ایک نقطے کی کمی عاجزؔ کہیں رہ جائے گی
نامکمل دوستی کا دائرہ رہ جائے گا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں