جمعہ، 26 اگست، 2016

غزل: حادثہ حادثہ نہیں ہوتا

غزل
 
حادثہ حادثہ نہیں ہوتا
جب تلک واقعہ نہیں ہوتا
 
بس ذرا وقت پھیل جاتا ہے
فاصلہ، فاصلہ نہیں ہوتا
 
عاشقی بے سبب نہیں ہوتی
عشق بے ضابطہ نہیں ہوتا
 
راستے بھی اُداس پھرتے ہیں
جب کبھی قافلہ نہیں ہوتا
 
بات بین السطور ہوتی ہے
زیست میں حاشیہ نہیں ہوتا
 
اُس جگہ بھی خدا ہی ہوتا ہے
جس جگہ پر خدا نہیں ہوتا
 
زندگی کے نگار خانے میں
رنگ بے مدعا نہیں ہوتا
 
شمیم احمد

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔