ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں
بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس
بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس
اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس
بہت خوب!
جواب دیںحذف کریںویسے میں نے آج غور کیا کہ آپ کے ایک ہی رنگ کے دو بلاگ ہیں۔ جسے میں ایک سمجھتا رہا ہوں۔ :)
بہت شکریہ احمد بھائی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںہی ہی ہی۔۔۔ اگر پہلے دن غور کر لیتے تو ہمارے دوست کیوں کر بنتے۔۔۔۔ :ڈی
Boht khoob
جواب دیںحذف کریں