جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس

خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس

حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس

کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس

اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش 
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس

3 تبصرے:

  1. بہت خوب!

    ویسے میں نے آج غور کیا کہ آپ کے ایک ہی رنگ کے دو بلاگ ہیں۔ جسے میں ایک سمجھتا رہا ہوں۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ احمد بھائی۔۔۔
    ہی ہی ہی۔۔۔ اگر پہلے دن غور کر لیتے تو ہمارے دوست کیوں کر بنتے۔۔۔۔ :ڈی

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔