منگل، 13 جون، 2017

وہی اک فریب حسرت کہ تھا بخشش نگاراں

وہی اک فریب حسرت کہ تھا بخشش نگاراں
سو قدم قدم پہ کھایا بہ طریق پختہ کاراں

وہ چلے خزاں کے ڈیرے کہ ہے آمد بہاراں
شب غم کے رہ نشینو کہو اب صلاح یاراں

مرے آشیاں کا کیا ہے مرا آسماں سلامت
ہیں مرے چمن کی رونق یہی برق و باد و باراں

نہ سہی پسند حکمت یہ شعار اہل دل ہے
کبھی سر بھی دے دیا ہے بہ صلاح دوست داراں

رہے حسن بن کے آخر جو خیال ادھر سے گزرے
یہ کدھر کی چاندنی تھی سر خاک رہ گزاراں

مرے ایک دل کی خاطر یہ کشاکش حوادث
ترے ایک غم کے بدلے یہ ہجوم غم گساراں

مری وحشتوں نے جس کو نہ بنا کے راز رکھا
وہی راز ہے کہ اب تک ہے میان راز داراں

شان الحق حقی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔