بدھ، 16 اگست، 2017

کچھ ایسے ڈھب سے ہنر آزمایا کرتا تھا

کچھ ایسے ڈھب سے ہنر آزمایا کرتا تھا 
میں اُس کا جھوٹ بھی سچ کر دکھایا کرتا تھا

اور اب تو میں بھی سرِ راہ پھینک دیتا ہوں 
کبھی میں پھول ندی میں بہایا کرتا تھا

کہیں میں دیر سے پہنچوں تو یاد آتا ہے
کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا

مرے وجود میں جب بھی گھٹن سی ہوتی تھی 
میں گھر کی چھت پہ کبوتر اڑایا کرتا تھا

بس اتنا دخل تھا میرا خدا کے کاموں میں
میں مرتے لوگوں کی جانیں بچایا کرتا تھا

یہ خود مجھے بھی بڑی دیر میں ہوا معلوم
کہ کوئی دکھ مجھے اندر سے کھایا کرتا تھا

میں اس کے عشق میں پاگل تھا پھر بھی دل میرا
مرے خلوص پہ تہمت لگایا کرتا تھا

لٹا کے نقدِ دل و جاں حسین چہروں پر 
میں اپنی عمر کی قیمت چکایا کرتا تھا

کچھ اس لئے بھی زیادہ تھی روشنی میری
کہ میں چراغ نہیں دل جلایا کرتا تھا

یہ میں جو ہاتھ ہلاتا تھا راہ چلتے ہوۓ
میں شہرِ خواب کے نقشے بنایا کرتا تھا

ہمارے دل میں بھی اک جوئے آب تھی جس میں 
کسی کی یاد کا پنچھی نہایا کرتا تھا

کبیؔر اتنا اندھیرا تھا میرے کمرے میں 
میں خواب میں بھی دریچے بنایا کرتا تھا

ڈاکٹر کبیر اطہر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔