منگل، 22 مئی، 2018

ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی


ملنے کی ہر آس کے پیچھے ان دیکھی مجبوری تھی
راہ میں دشت نہیں پڑتا تھا چار گھروں کی دوری تھی

جذبوں کا دم گھٹنے لگا ہے لفظوں کے انبار تلے
پہلے نشاں زد کر لینا تھا جتنی بات ضروری تھی

تیری شکل کے ایک ستارے نے پل بھر سرگوشی کی
شاید ماہ و سال وفا کی بس اتنی مزدوری تھی

پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب
ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی

ایک غزال کو دور سے دیکھا اور غزل تیار ہوئی
سہمے سہمے سے لفظوں میں ہلکی سی کستوری تھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔