پیر، 4 جون، 2018

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے 
کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے 

گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں 
گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے 

نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی 
مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے 

اب اک تیر بھی ہو لیا ساتھ ورنہ 
پرندہ چلا تھا سفر پر اکیلے 

جو دیکھو تو اک لہر میں جا رہے ہیں 
جو سوچو تو سارے شناور اکیلے 

تری یاد کی برف باری کا موسم 
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے 

ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر 
گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے 

زمانے سے قاصرؔ خفا تو نہیں ہیں 
کہ دیکھے گئے ہیں وہ اکثر اکیلے

1 تبصرہ:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔