سنۂ 2005 میں جب فدوی نے امتیازی گریڈ کے ساتھ گریجویشن مکمل کی تو آنکھوں میں نہ جانے کیا کیا خواب سجا رکھے تھے۔ کہ ڈگری ہاتھ آتے ہی دارالخلافہ کی تمام نامور کمپنیز میں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ ایک سے ایک پیشکش ملے گی، جہاں لیپ ٹاپ، موبائل فون، گاڑی بمعہ ڈرائیور اور رہائش جیسی سہولیات تو ظاہر ہے میسر ہوں گی ہی، ساتھ ہی سال میں بیرون ممالک کے دو چار دورے اور انہی ممالک میں چھٹیاں گزارنے کے خواب بھی پورے ہوں گے۔
ماں باپ کی دعاؤں، اساتذہ کرام کی سرپرستی اور اللہ کے کرم سے پہلی نوکری حاصل کرنے میں چنداں دشواری نہ ہوئی۔ اور تعلیم مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی ایک بڑی اور مشہور کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ جہاں عملی زندگی کے لگ بھگ چار سال گزارنے کے بعد سافٹ وئیر انجینرنگ کے نشیب و فراز کو سمجھ چکنے کے بعد خاکسار اک قابل اعتماد سافٹ وئیر انجینر کے روپ میں ابھرا۔۔۔۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد دل میں ایک احساس جاگزیں ہوا کہ وہ جو خواب آنکھوں میں سجائے پھرتے تھے۔ ان کی چھبن ہنوز باقی ہے۔ شاید ان کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اور مجھے ان کی تکمیل کے لیے کسی اور جگہ حصول ملازمت کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
موقع کی مناسبت سے دارالخلافہ ہی کی ایک اور نامور کمپنی (جو کہ اپنے ملازمین کی کڑی نگرانی کے لیے مشہور تھی) میں ایک درخواست حصول ملازمت دائر کی۔ جو کہ اللہ کے فضل سے شنوائی کے مراحل سے فیضیاب ہوئی۔ مگر حیف کے ماقبل انٹرویو ہی 16 صفحات پر مشتمل ایک عدد فارم بھرنے کو دے دیا گیا۔ اس شاہراہ پاکستان کی طوالت والے فارم میں جس قسم کی اور جتنی معلومات درکار تھیں ، یقینا اتنی معلومات تو احقر کے سسرال والوں نے بھی بیٹی دیتے وقت نہ لیں تھیں۔ فارم بھرتے وقت بارہا احساس ہوا شاید کسی بہت حساس ادارے کے لیے انٹرویو دینے جا رہا ہوں۔ قصہ مختصر، دو چار انٹرویو ہوجانے کے بعد اور پھر مزید کچھ ضروری کارروائیاں مکمل ہوتے ہی تعیناتی کا خط موصول ہوا۔ جو کہ اس خاکسار کے لیے لمحہ پرمسرت ٹھہرا۔۔۔۔کیوں کہ گماں ہو چلا تھا۔ کہ وہ سب خواب جو ادھورے رہ گئے تھے۔۔۔۔ بس اب مکمل ہونے کو ہیں۔۔۔ لیکن جیسا کہ سنتے آئے ہیں دور کے ڈھول سہانے۔۔۔ تو اس مقولہ کی صداقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی جب نئی کمپنی میں لیپ ٹاپ تو درکنار کام کرنے کو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بھی قریب کوئی آدھامہینہ گزر جانے کے بعد مہیا ہوا۔۔۔۔۔
بہرحال، کمپیوٹر مل گیا۔ کام کی سختی بھی بڑھتی گئی۔ نئی کمپنی کی امیدوں پر پورا اترنے کو فدوی نے دن رات ایک کر دیا اور یوں کئی سال گزر گئے۔ معاشی ترقی بیشک ملتی رہی، عہدے میں بھی تنوع آتا رہا ، لیکن وہ ادھورے خواب ادھورے ہی رہے۔۔۔۔
چند ماہ پہلے فدوی کو لیپ ٹاپ سے نوازا گیا، جو کہ اس کمپنی میں کسی کو نشان حیدر ملنے سے کم نہ تھا، تو اس خوشی کا صحیح حق ادا کرنے کے لیے پوری ٹیم کے ساتھیوں نے اس غریب سے شہر کی سب سے اعلیٰ بیکری سے ڈونٹس منگوا کر کھائے۔ لیکن احقر اس بات سے یکسر انجان تھا کہ یہ خوشی بھی اس کے لیے وبال جاں ٹھہرے گی۔ ریلیز کے شروع ہوتے ہی کام کا انبار لگ گیا، اور اعلیٰ حکام (جو کہ امریکہ میں بیٹھا کرتے ہیں ) سے اوقات کا فرق ہونے کی وجہ سے رات گئے تک کام کی توقع کی جانے لگی، دفتر میں کام، گھر میں کام اور پھر تس اس پر یہ کہ مزید کام۔۔۔۔۔ میں تو مولٹی فوم کا اشتہار بن کر رہ گیا۔
اس سب کے باوجود ملازمین کے لیے انتہائی سخت پالیسیاں، وہ بھی ایسی کہ انسانیت کے خلاف۔۔۔ چائے ضرورت کے تحت نہیں بلکہ وقت کے تحت پی جائے۔ یعنی جب چائے پینے کو دل کرے تب نہیں، بلکہ صرف مقرر کردہ اوقات میں چائے پی جائے۔ ہر ہال میں لاگ ان /لاگ آؤٹ کی ڈیوائسز موجود ہوں، اور واش روم تک جانا بھی کمپنی سے اخراج تصور کیا جائے۔ کھانا اور چائے تو بہت دور کی بات، اگر گھر سے لائے ہوئے کھانے کے لیے بھی کمپنی سے ایک ڈسپوزبل پلیٹ درکار ہو تو اس کے لیے بھی 10 روپے کا ہدیہ پیش کرنا پڑے۔ شلوار قمیص جو کہ اس ملک کا قومی لباس ہے پہننے پر پابندی لگی ہو۔ اقرباء پروری بام عروج پر ہو۔ نظر کرم اور آسائشیں صرف من پسند یا پھر صنف نازک تک ہی محدود ہوں۔ یا پھر وہ جو امراء طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جب کہ ان سب کے مقابلے میں عام آدمی جو کہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہو وہ ہر قسم کی مراعات سے بےبہرہ اور نافیضیاب رہے۔
آج راقم سوچ میں گم ہے کہ کیا یہ سب وہی خواب تھا جو کئی سال پہلے کسی کارپوریٹ کمپنی میں کام کرنے سے قبل دیکھتا تھا۔ کیا یہ اسی کی تعبیر تھی؟ جس کو حاصل کرتے کرتے آدھا سر سفید اور کمر تیس سے اڑتیس تک جا پہنچی۔ وزن ساٹھ سے سو کلو ہوگیا۔
شاید نہیں، لیکن احقر وہ اکیلا گریجوایٹ نہیں جس کے خواب پرائیویٹ کمپنیز کے استحصالی رویے کا شکار ہوگئے۔ یہاں پاکستان میں ہزاروں ایسی کمپنیاں ہیں جن میں کام کرنے والے سینکڑوں نوجوان جب یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کے کر کے ملٹی نیشنل آرگنائزیشنز کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بیٹھے ہوئے مینیجرز جو صرف اپنی ترقی اور اپنا نام روشن کرنے کے لیے اپنے ان جونئیرز اور ماتحتوں کی کمزوریوں کو بخوبی بھانپ لیتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ اور وہ تمام خواب جو مجھ جیسے کسی گریجوایٹ نے دیکھے ان کو چکنا چور کردیتے ہیں۔ سہولیات تو ایک طرف سال گزرنے کے بعد جب اضافے کا وقت آتا ہے۔ تو ملازمین کو ہزارہا بار باور کروا کر چند ہزار روپے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے کو کہ ہماری ناگفتہ بہ ملکی معاشی حالت اور امریکی ڈالر کی قیمت میں روز اضافہ کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو اگلی ٹیکس کی حدود میں چلے جانے کی وجہ سے یہ فائدہ الٹا نقصان کا سبب بنتا ہے۔
لیکن کب تک؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کب تک ہوتا رہے گا؟ فدوی اپنے آپ سے بھی یہی سوال کرتا ہے تو اس کا یہی جواب آتا ہے کہ متوسط گھرانوں کے چشم و چراغ جب نوکری کے لیے نکلتے ہیں تو کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ گھر والوں کی آنکھوں میں امید کے جگمگاتے دیے ان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سر اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی اور ساری جابرانہ پالیسیز پر سر تسلیم خم کیے کام کرتے ہیں۔ اس ملک میں ملازمین کے حقو ق کی تنظیموں کا قیام ازحد ضروری ہے۔ جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملازمین کی حق تلفی نہ ہو، ان سے ضرورت سے زائد کام نہ لیا جائے اور ان کو کام کا مناسب معاوضہ دیا جائے۔ یہ کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پورا ہوتا تو نہیں لگتا تو گماں یہ گزرتا ہے کہ اس گریجوایٹ کے خواب بس خواب ہی رہیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں