جمعرات، 24 اکتوبر، 2013

بدکار از قلم واصف

بد کار-
جب میں سنِ بلوغت کو پہنچا تو کچھ انجانے الفاظ نے ذہنی توجہ کا گھیراؤ کیاجن میں سے ایک تھا "جسم فروش"- جب ذہنی پختگی اور معاشرتی شعور سے ہمکنار ہوا تودرج بالا لفظ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوا-
معلوم ہوا کہ جسم فروشی ایک باقاعدہ پیشہ بن  ہے اور کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پیشے کو نہ صرف سراہتی ہیں بلکہ اس میں شمار افراد کی حفاظت کے بھی کافی قوانین بن چکے ہیں- مغربی ممالک میں ان قوانین کی پاسداری نہ کرنا ایک سنگین جرم سے کم نہیں اور اس کی باقاعدہ سزا بھی ہے-
جسم فروش کا باہم تعلق بدکار سے ہوتا ہے جو محظ اپنی تسکین کے لیے کچھ روپے کے عوض کسی جسم فروش کا استعمال کرتا ہے- بد کار کی اسی پہچان سے میں برسوں سے آشنا تھا لیکن اک روز کچھ عجب ماجرا  ہوا جس نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا-
نئی سوچ کے ترازو میں اگرتولوں توبہت سی با وقار شخصیات شرافت کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہیں- لیکن کیا میں صحیح سوچتا ہوں؟ میں اپنی قصیرالعلمی اور ناقص سوچ کے باعث ہر گز اپنے سوچنے کے انداز کو صحیح یا کسی اور کے سوچنے کے انداز کو غلط نہ کہوں گا- بلکہ یہ فیصلہ پڑھنے والے پر ہی چھوڑ دوں گا-
گھر میں لکڑی کا کچھ کام درپیش تھا، میں اتوار کے روز حسب عادت صبح صبح اٹھ چکا تھا اور دیگر افراد کو اٹھنے پر اکسا رہا تھا- بمشکل صبح کے دس بجے ناشتہ کر، سب کاموں کی فہرست بنا کر گھر سے نکلا- جو کام آج سب سے زیادہ ضروری تھا وہ لکڑی  کٹوا کر بےبی کاٹ کا فرشی تختہ بنوانا تھا- اسی کام کی غرض سی میں پنڈورہ چنگی چلا گیا اور اپنی خواہش کے کام کے بارے میں چند لکڑی کے ٹالوں پر یکے بعد دیگرے بیاں کیا- آخرایک ٹال کے سیلز ڈیسک پر بیٹھے آدمی (جو شاید اس ٹال کا منیجر تھا) نے میرا بیان کردہ کام کرنے کی ہامی بھر لی- جب پیسوں کا معاملہ طے پا گیا تو اس نے مجھے اندر چلے جانے کو کہ دیا اور ایک آدمی کو شیشہ والی کھڑکی سے میرے اندر آنے کے بارے میں مطلع  کیا۔
ٹال کے اندر  بے حد شور تھا، کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی- میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر میں نے یہاں تھوڑا اور وقت گزارہ تو قوت سماعت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا-
ایک آدمی سر سے لے کر پاؤں تک لکڑی کے برادے میں ڈوبا ہوا میری طرف بڑھا اور اندر کی طرف موجود ایک ہال کی طرف اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا- میں اس کے تعاقب میں اسے ہال میں پہنچ گیا- اس جگہ شورکم تھا میں نے اکرم کو اپنے مطلوبہ کام کے بارے میں بتلایا-
"اکرم"، ہاں اس آدمی کا نام اکرم تھا، کسی نے اس کو اسی نام سے پکارا تھا- اس کی عمر لگ بھگ پچاس سال سے کچھ زیادہ ہو گی- اکرم بہت ہنر مند تھا، یہ میں اس کے کام کرنے کے انداز سے فورا سمجھ گیا تھا- اکرم دونوں کانوں سے تقریبا بہرہ تھا، اس کا ایک ہاتھ کلای تک کٹا ہوا تھا- اور لکڑی کے برادے سے اس کی آنکھیں دہکتے ہوئے انگارے کی مانند سرخ تھیں- اکرم میرے بتائے ہوئے کام کا آغاز کر چکا تھا- مجھے اس کو سمجھانے کے لیئے کافی اونچا بولنا پڑ رہا تھا- اپنی عادت سے مجبور مجھ سے رہا نہیں گیا اوراونچا بولنے کی زک کے  باوجود میں نے اکرم سے بات چیت شروع کی-
جب اکرم مجھ سے کچھ بے تکلف ہو گیا تو میں نے اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں دریافت کیا- اکرم نے میری شکل غور سے دیکھی، کچھ سوچا اور بولا صاحب رہنے دیں کیا کریں گے جان کر- میرے اسرار پر اکرم نے بتایا کہ وہ جو باہر آپ آرا  چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں نا اسی میں اک روز میرا ہاتھ پھنس کر کٹ گیا تھا- یہ کوئی بیس سال پرانی بات تھی- اکرم لگ بھگ پچیس سال سے اسی ٹال پر ملازم تھا- اکرم نے مزید بتایا کی اس کے دونوں کانوں کی قوت سماعت بھی اسی آرا مشین کے شور کی نظر ہو گئی ہے اور اب اس کو بہت کم سنائی دیتا ہے- اور آنکھیں بھی ساری رات پانی ٹپکاتی ہیں اور کسی نیم حکیم کی دوائی سے اس کی آنکھیں اور خراب ہو گئی ہیں-
میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ مالک نے اس کے ہاتھ کٹ جانے کے حادثہ پر اس کی بیوی کو پانچ ہزار روپے دیے تھے  جب اکرم سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھا- اس کے علاوہ آج تک اکرم کواگرمزید کچھ دیا گیا تھا تو وہ تھیں کام سےنکال دینے کی دھمکیاں، جھڑکیاں، اضافی کام اور کم تنخواہ پر کام کرنے پردباؤ-
میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ میرے کٹے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے مجھے کوئی اور ٹال والا کام پر نہیں رکھتا- ایک ٹال پر مجھے نوکری ملی بھی تھی مگر جب اس ٹال کے مالک کو پتہ چلا تو اس نے میری نوکری چھڑوا دی کیونکہ اس ٹال کا مالک بھی میرے مالک کا رشتہ دار تھا-
ٹال کا مالک  اپنی چاندی کے لیےاکرم اور اس جیسے کئی اور ملازمین کے اجسام کا بلا تعلق استعمال پچھلے بیس سال سے کرتا آ رہا تھا- اکرم جو اپنے اعضا اس ٹال کے مالک کی ناکافی احتیاطی تدابیرکے باعث کھو بیٹھا تھا، اسی آس میں کام پر آ جاتا تھا کہ اس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے گی- اس طرح کے جسمانی استعمال کہ جس کا معاوضہ بھی استعمال کے مطابق نہ ہو، میں بدکاری نہ کہوں تو کیا کہوں؟ بلکہ یہ فعل تو بدکاری سے بھے نچلے درجے کا ہے- بد کاری کرنے والا کم از کم جسم فروش کو اس کام کا طہ شدہ معاوضہ تو دے دیتا ہے- اکرم بیچارے کو تو اس کے کام کے مطابق معاوضہ بھی نہیں ملتا-
اکرم نے میرا فرشی تختہ تیار کر دیا تھا، اکرم کا کام بہت عمدہ تھا میں نے اس کو اپنی استطاعت کے مطابق چند روپے بطورانعام دیے اور باہرنکل آیا- کافی سوچا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروا دوں، اکرم کو کہیں اور نوکری دلوا دوں یا کسی طرح اکرم کی مدد کروں پرافسوس کچھ قابل ذکرنہ کر سکا-
لیکن اس دن کے بعد سے ایسے تمام مالکان جو اپنے ملازمین سے ان کی استطاعت سے زیادہ کام لیتے ہیں،  ملازمین کی دوران کام حفاظت کو ترجیح نہیں دیتے، اپنی چاندی کے لیئے ملازمین کو اوور ٹائم لگانے پر مجبور کرتے ہیں اورملازمین کی محنت کا پھل اکیلے ہی ہڑپ کر جاتے ہیں ان کو میں اب نئی سوچ کے آئینے سے دیکھتا ہوں- اور آپ ایسے لوگوں کو کیسے دیکھتے ہیں یہ میں آپ پر چھوڑے دیتا ہوں----
                                                 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔