پیر، 7 اکتوبر، 2013

شاید میں تھک گیا ہوں از قلم واصف

گھڑی کی سوئیاں لگ بھگ چھ بجا رہی تھیں، سکرم میٹنگ کا اختتام ہوااور آج میں مزید بیٹھنے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ تھکاوٹ کی وجہ ذہن پر بھی بوجھ محسوس کر رہا تھا- یہ تھکن صرف آج کی نہیں تھی، دفتر میں موجودہ ریلیز (جو کہ پچھلے تقریبا آٹھ ماہ سے جاری تھی) میں کام کے پریشر اورلیٹ سٹنگ معمول بن چکا تھا-
میں نے لیپ ٹاپ کا بیگ اٹھایا اورلفٹ ایریا میں جا پہنچا- آج لفٹ ایریا میں لوگوں کا ہجوم تھا- میں نے سیڑھیوں سے جانے کا ارادہ کیا اورلفٹ میں داخل ہو گیا- بی فور فلور پر پہنچ کر اپنی کار کی پچھلی سیٹ پر آئی پیڈ رکھا، موٹر سایکل کو کک ماری اور گھر کی راہ لی- راستہ میں اپنی بیوی (جوکہ گزشتہ رات میرے جلد سوجانے کی وجہ سے نالاں تھی) کے لیےکچھ کھجوریں خرید لیں-
 گھرپہنچ کر پکوڑوں کا لفافہ اپنی بیوی کو تھمایا اور والدہ گرامی سے علیک سلیک کرنے کے بعد اپنے کمرہ میں پہنچ چارپائی پر لیٹ گیا- میں کافی تھکن محسوس کر رہا تھا، بیوی کچن میں چلی گئی اور میں تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد ڈبل بیڈ سے اٹھا اور نہانے کا ارادہ کیا، لیکن یاد آیا کہ صبح گیزر چلانا بھول گیا تھا اس لیے پانی ٹھنڈا ہی آ رہا ہو گا- مرتا کیا نہ کرتا، بالکنی کا دروازہ کھولا اورشاورکے نیچے پانی کھول کر کھڑا ہو گیا- باتھ ٹب میں لیٹے گرما گرم پانی میری سے مجھے کافی سکون مل رہا تھا-
نہانے سے فارغ ہو کر بھوک محسوس کی تو کچن کی جانب چل پڑا-لاؤنج میں پہنچ کر ڈایننگ ٹیبل سے ایک سیب اٹھا کر والدہ کے کمرہ میں پہنچا اور انگور کھانے شروع کیے- اتنی دیر میں بیوی آم کا جوس اور سموسے لے کر آ گئی- میں نے گرم گرم چائے کا گھونٹ بھرا اور بیگم اور والدہ سے معمول کی باتوں میں مشغول ہو گیا- قریب رات کے بارہ بجے مجھے نیند محسوس ہوئی اور میں سونے چلا گیا-
صبح آنکھ موبائل پر بجنے والے الارم سے کھلی- میں نے ہڑبڑا کر ٹی وی بند کیا اور نہا دھو کر ناشتہ کی میز پر آ بیٹھا- ناشتہ کیا، ایکویریم میں طوطوں کو کھل ڈالی اور آفس کی طرف ایک اور تھکا دینے والے دن کا آغاز کیا-
آج کوئی سافٹ سانگ سننے کا موڈ تھا- اپنی کار کے ڈیش بورڈ سے مایکل جیکسن کی ڈی وی ڈی نکال کر ڈی وی ڈی پلیئر میں ڈال دی- راحت فتح علی خان کی آواز میں سریلے سانگ سنتے سنتے میں کب سیونتھ ایونیو پہنچ گیا پتہ ہی نہ چلا- آج ناینتھ ایونیو پر بہت رش تھا- معلوم ہوا کی کسی کار کی ایک تیز رفتار بھینس سے ٹکر ہو گئ ہےجس میں دو بکری کے بچے مر گئے ہیں اور ٹرک ڈرائیور بھی شدید زخمی ہے- نہ جانے یہ کیسا ملک ہے؟ اتنا شدید ایکسیڈنٹ ہوا 15 منٹ گزر گئے ہیں اور ابھی تک بم ڈسپوزل اسکواڈ والے نہیں پہنچے- میں نے اپنا موٹرسائکل فٹ پاتھ پرچڑھا لیا اور بچ بچا کر نکلنے کی کوشش کی- خون کے رنگ سے پوری سڑک نیلی ہو رہی تھی-

آفس پہنچ کر میں کیری سے اترا اور لفٹ میں پہنچ ایٹتھ فلور والا بٹن پریس کیا- سیڑھیاں چڑھ کر میرا سانس پھول رہا تھا، کئی گلاس پانی پیے اور اپنی سیٹ پر پہنچا- کافی پیاس محسوس ہو رہی تھی میں روزانہ کے کاموں میں مصروف ہو گیا لیکن ساتھ ہی یہ خیال ہوا کہ یہ پچھلا دن کیسا گزرا؟ یہ میں نے کیا تحریر کیا؟ شاید میں تھک گیا ہوں اسی لئے دماغی بے ترتیبی کا شکار ہوں-

4 تبصرے:

  1. بہت اعلیٰ سر۔۔۔ جب تحریر پڑھنی شروع کی تو یہ سمجھا کہ مصنف پاگل ہے لیکن پڑھتے پڑھتے آخر تک نا صرف مسکرا اٹھا بلکہ یہ بھی یقین ہو گیا کہ مصنف بلکل ہی پاگل ہے۔۔۔ :)
    خوش رہیں اور اچھا لکھتے رہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. واہ بہت اچھی اور طنز و مزاح سے بھرپور تحریر ھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. احباب کی توجہ پر شکرگزار ہوں۔۔۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. تھوڑی دیر بعد سمجھ لگی!!
    لیکن سمجھ لگ گئ آخرکار۔۔

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔