پیر، 11 نومبر، 2013

متاعِ جاں

یوں مجھے کب تلک سہو گے تم 
کب تلک مبتلا رہو گے تم 

درد مندی کی مت سزا پاؤ
اب تو تم مجھ سے تنگ آجاؤ

میں کوئی مرکزِ حیات نہیں
وجہ تخلیقِ کائنات نہیں 

میرا ہر چارہ گر نڈھال ہوا
یعنی ، میں کیا ہوا، وبال ہوا

جون غم کے ہجوم سے نکلے 
اور جنازا بھی دھوم سے نکلے 

اور جنازے میں ہو یہ شورِ حزیں
آج وہ مر گیا ، جو تھا ہی نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔