گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے
کربلا میں آئے تھے دنیا سے جانے کے لیے
ظہر کو زینب سے جب ملنے گئے گھر میں حُسین
کوئی ڈیوڑھی پر نہ تھا پردہ اٹھانے کے لیے
صبر یہ تھا مرگ پر باندھی جو اکبر نے کمر
شہ نے الٹی آستیں لاشہ اٹھانے کے لیے
کہتی تھی ماں خط مرے اکبر کو تھا پیغامِ مرگ
یہ جوانی آئی تھی گویا بلانے کے لیے
بڑھتی ہے منت غذا اصغر کی ہوتی ہے شروع
دودھ چھٹتا ہے چلے ہیں تیر کھانے کے لیے
عرشِ اعظم سے گزر جاتی ہے آہِ شاہِ دیں
تیر ایسا چاہیے ایسے نشانے کے لیے
تھا سرائے دہر میں اصغر کو رہنا ناگوار
مارتے تھے دست و پا دنیا سے جانے کے لیے
ڈھونڈتے ہیں طائرانِ گنبدِ قبرِ حسین
حضرتِ جبریل کے پر آشیانے کے لیے
کھیلتی تھیں خاک سے طفلی میں زینب بارہا
مشق کی تھی کربلا میں خاک اڑانے کے لیے
کربلا والوں کا ماتم دار تھا جنگل میں کون
رونے کو شبنم، ہوا تھی خاک اڑانے کے لیے
بخششِ سرور کی بازارِ عطا میں دھوم ہے
آستیں الٹے کھڑے ہیں گھر لٹانے کے لیے
حضرتِ سجاد راہِ شام سے واقف نہ تھے
ہاتھ پکڑے تھی رسن رستہ بتانے کے لیے
صبح سے تا ظہر تھی شہ کو یہ زہرا کی صدا
ہم نے پالا تھا تمہیں لاشے اٹھانے کے لیے
سن سے تیر آیا کہ آنکھیں ہو گئیں اصغر کی بند
خوب جھونکا تھا ہوا کا نیند آنے کے لیے
اے تعشق وائے حسرت کچھ نہیں زادِ سفر
ہاتھ خالی بیٹھے ہو دنیا سے جانے کے لیے
بہت عمدہ نزرانہ عقیدت پیش کیا ہے جناب- دعا ہے کہ قبول ہو-آمین
جواب دیںحذف کریں