بدھ، 12 فروری، 2014

معنی کا عذاب

معنی کا عذاب

چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا

بھولے بھالے اک بچے نے
بے معنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔