منگل، 27 جنوری، 2015

اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے

اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے

کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے

راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے

میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس کا ہے

وہی تپتا ہوا صحرا وہی سوکھے ہوئے ہونٹ
فیصلہ کون کرے آب رواں کس کا ہے

چند رشتوں کے کھلونے ہیں جو ہم کھیلتے ہیں
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔