چل
پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا
یہ
تماشا بھی کسی دن ہمیں کرنا ہوگا
ریت
کا ڈھیر تھے ہم، سوچ لیا تھا ہم نے
جب
ہوا تیز چلے گی تو بکھرنا ہوگا
ہر
نئے موڑ پہ یہ سوچ قدم روکے گی
جانے
اب کون سی راہوں سے گزرنا ہوگا
لے
کے اس پار نہ جائے گی جدا راہ کوئی
بھیڑ
کے ساتھ ہی دلدل میں اترنا ہوگا
زندگی
خود ہی اک آزار ہے جسم و جاں کا
جینے
والوں کو اسی روگ میں مرنا ہوگا
قاتلِ
شہر کے مخبر در و دیوار بھی ہیں
اب
ستمگر اسے کہتے ہوئے ڈرنا ہوگا
آئے
ہو اس کی عدالت میں تو مخمورؔ تمہیں
اب
کسی جرم کا اقرار تو کرنا ہوگا
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںعمدہ انتخاب :) :)
شکرگزار ہوں احمد بھائی :)
جواب دیںحذف کریں