دل سے ہر گزری بات گزر
ی ہے
کس قیامت کی رات گزری
ہے
چاندنی، نیم وا دریچہ،
سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات
گزری ہے
ہائے وہ لوگ خوبصورت
لوگ
جن کی دھُن میں حیات
گزری ہے
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی
موج
کتنی یادوں کے سات گزری
ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایّام
دل پہ کیا واردات گزری
ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑاتی
ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی
پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے! رات گزری
ہے!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں