جمعہ، 22 دسمبر، 2017

تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے

پیار کی آخری پونجی بھی لٹا آیا ہوں 
اپنی ہستی کو بھی لگتا ہے مٹا آیا ہوں 
عمر بھر کی جو کمائی تھی گنوا آیا ہوں 
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں 
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں 

تو نے لکھا تھا جلا دوں میں تری تحریریں 
تو نے چاہا تھا جلا دوں میں تری تصویریں 
سوچ لیں میں نے مگر اور ہی کچھ تدبیریں 
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں 
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں 

تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے 
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے 
تیرے ہاتھوں کے لکھے خط میں جلاتا کیسے 
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں 
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں 

جن کو دنیا کی نگاہوں سے چھپائے رکھا 
جن کو اک عمر کلیجے سے لگائے رکھا 
دین جن کو جنہیں ایمان بنائے رکھا 
جن کا ہر لفظ مجھے یاد ہے پانی کی طرح 
یاد تھے مجھ کو جو پیغام زبانی کی طرح 
مجھ کو پیارے تھے جو انمول نشانی کی طرح 
تو نے دنیا کی نگاہوں سے جو بچ کر لکھے 
سالہا سال مرے نام برابر لکھے 
کبھی دن میں تو کبھی رات کو اٹھ کر لکھے 
تیرے رومال ترے خط ترے چھلے بھی گئے 
تیری تصویریں ترے شوخ لفافے بھی گئے 
ایک یگ ختم ہوا یگ کے فسانے بھی گئے 
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں 
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں 

کتنا بے چین انہیں لینے کو گنگا جل تھا 
جو بھی دھارا تھا انہیں کے لیے وہ بے کل تھا 
پیار اپنا بھی تو گنگا کی طرح نرمل تھا 
تیرے خط آج میں گنگا میں بہا آیا ہوں 
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگا آیا ہوں

راجندر ناتھ رہبر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔