جمعہ، 29 دسمبر، 2017

دل وہ پیاسا ہے کہ دریا کا تماشا دیکھے

دل وہ پیاسا ہے کہ دریا کا تماشا دیکھے
اور پھر لہر نہ دیکھے کف دریا دیکھے

میں ہر اک حال میں تھا گردش دوراں کا امیں
جس نے دنیا نہیں دیکھی مرا چہرہ دیکھے

اب بھی آتی ہے تری یاد پہ اس کرب کے ساتھ
ٹوٹتی نیند میں جیسے کوئی سپنا دیکھا

رنگ کی آنچ میں جلتا ہوا خوشبو کا بدن
آنکھ اس پھول کی تصویر میں کیا کیا دیکھے

کوئی چوٹی نہیں اب تو مرے قد سے آگے
یہ زمانہ تو ابھی اور بھی اونچا دیکھے

پھر وہی دھند میں لپٹا ہوا پیکر ہوگا
کون بے کار میں اٹھتا ہوا پردہ دیکھے

ایک احساس ندامت سے لرز اٹھتا ہوں
جب رم موج مری وسعت صحرا دیکھے

اختر امام رضوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔