جمعہ، 30 اگست، 2013

شکرا

مائے! نی مائے!
میں اک شکر یار بنایا 
اوہدے سر تے کلغی 
تے اوہدے پیریں جھانحھر
تے اوہ چوگ چگیندا آیا
نی میں واری جاں!

اک اوہدے روپ دی 
دھپ مکھیری 
دوجا مہکاں دا ترہایا 
تیجا اوہدا رنگ گلابی 
کسے گوری ماں دا جایا 
نی میں واری جاں!

نینیں اوہدے 
چیت دی آتھن 
اتے زلفیں ساون چھایا 
ہو ٹھاں دے وچ کتیں دا 
کوئی دیہوں چڑھنے آیا 
نی میں واری جاں!

ساہواں دے وچ پھل سویا ں دے 
کسے باغ چنن دا لایا 
دیہیں دے وچ کھیڈے چیتر 
عطراں نال نہایا 
نی میں واری جاں!

بولاں دے وچ 
پون پرے دی 
نی اوہ کوئلاں دے ہمسایا 
چٹے دند جیوں دھانوں بگلا 
تاڑی مار اڈایا 
نی نیں واری جاں!

عشفے دا 
اک پلنگھ نواری 
اساں چانیناں وچ ڈاہیا 
تن دی چادر ہو گئی میلی 
اس پیر جاں پلنگھے پایا 
نی میں واری جاں!

دکھن میرے 
نیناں دے کوئے
وچ ہڑ ہنجوواں دا آیا 
ساری رات گئی وچ سوچاں 
اس ایہ کیہ ظلم کمایا 
نی میں واری جاں !

صبح سویرے 
لے نی وٹنا 
اساں مل مل اوس نہایا 
دیہی وچوں نکلن چنگاں 
تے ساڈا ہتھ گیا کملایا 
نی میں واری جاں 

چوری کٹاں!
تے اوہ کھاندا ناہیں 
اوہنوں دل دا ماس کھوایا 
اک اڈاری ایسی ماری 
اوہ مڑو طنیں نہیں آیا 
نی میں واری جاں!

مائے نی مائے!
میں اک شکرا یار بنایا 
اوہدے سر تے کلغی 
تے اوہدے پیریں جھانحھر
تے چوگ چگیندا آیا 
نی میں واری جاں !

جمعرات، 29 اگست، 2013

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی​
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی​
خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں​
خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی​
ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج​
اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی​
مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے​
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی​
بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا​
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی​
کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے​
وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی​
اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی​
منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی​
کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار​
رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی​
سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا​
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی​
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو​
شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی​
میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار​
کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی​
آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے​
درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی​
اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل​
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی​

اتوار، 18 اگست، 2013

ماں میں آیا تھا

--------------------------------------------------------------------
گلزارؔ کی اپنی جنم بھومی دینہ جہلم سے واپسی پر ایک نظم
--------------------------------------------------------------------

ماں میں آیا تھا
تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو میں آیا تھا
شکاری تاک میں تھے پر
ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
وطن کے آسمانوں کو، ندی نالوں، درختوں اور ڈالوں کو
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے، جلاوطنی کی لمبی رات ہے
صدیوں کو جاتی ہے، وہاں سے ٹرین آتی ہے
دکھوں کے دھندلکوں میں شام میں لپٹی ہوئی
یادوں کی ریکھاؤں
ریلوے کی پٹڑیوں پہ جھلملاتی ہیں
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
میرے گاؤں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں
رکھی شیشم کی ٹیبل پر کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
زندگی کا جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
میں وہ ناول بھول آیا
پر میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
میں چھوٹا تھا، میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کے آیا ہوں
میں کئی گیت لایا ہوں تری خاطر
میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں اب تک
گاؤں کا ویران اسٹیشن میرے خوابوں میں جو آباد ہے
اب تک حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
جو مجھ کو تیرے پیروں میں لے آئے
تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
دفن کر دے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیٹھی
شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام
میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے
میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ، یہ سرحد میں بٹی دنیا
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو، جہلم کے دریا کو
نیلم کے نیلے پانیوں کو، ندی جتنے ہمارے آنسوؤں کو
مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہواؤں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
میرے دادا کے دینے کو
خوں پسینے کو
سمادھی گردواروں، مندروں اور مسجدوں، گرجوں کو
مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
یہ سرحد میں بٹی دنیا
شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
کچھ بھی بنا دے
کتابوں سے بھری کوئی شیلف
یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
کوئی بھگوان، کوئی بدھا
کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
یہ سرحد میں بٹی دنیا
یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
ماں میں آیا تھا
جنم بھومی میری بھومی
جنم تو نے دیا مجھ کو
تیرے پیروں کے نیچے
وہ جو جنت ہے
وہ جو ندی بہتی ہے کہتی ہے مجھ سے
تھک گیا ہے تو، اب تو سو جا، پر سو نہیں سکتا
مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
چاک پر چڑھ جا کمہارن کے
پر ایسا ہو نہیں سکتا مگر میں سو نہیں سکتا
کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
یہ سرحد میں بٹی دنیا
ماں!
میں آیا تھا

جمعرات، 15 اگست، 2013

من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے

من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے

جی کی جی میں رہ جاتی ہے آیا وقت ہی ٹل جاتا ہے
یہ تو بتاؤ کس نے کہا تھا، کانٹا دل سے نکل جاتا ہے

جھوٹ موٹ بھی ہونٹ کھلے تو دل نے جانا، امرت پایا
ایک اک میٹھے بول پہ مورکھ دو دو ہاتھ اچھل جاتا ہے

جیسے بالک پا کے کھلونا، توڑ دے اس کو اور پھر روئے
ویسے آشا کے مٹنے پر میرا دل بھی مچل جاتا ہے

جیون ریت کی چھان پھٹک میں سوچ سوچ دن رین گنوائے
بیرن وقت کی ہیرا پھیری پل آتا ہے پل جاتا ہے

میرا جی روشن کر لوجی، بن بستی جوگی کا پھیرا
دیکھ کر ہر انجانی صورت پہلا رنگ بدل جاتا ہے

بدھ، 14 اگست، 2013

امریکی کوکیز​ از عکسی مفتی

امریکی کوکیز​

ایک دن کی بات

امریکی ایمبیسی کے پبلک افیئر افسر Larry Shuartz کا فون آیا۔ لیری کو میں پہلے سے جانتا تھا۔ اُس نے کہا:
"مفتی کافی اور کوکیز کھانے کے لیے کل شام F-6/3 میں میرے گھر آجاو۔ بہترین امریکی کوکیز کھلاوں گا اور تم سے ملاقات بھی ہو جائے گی"
اگلے روز سہ پہر کے وقت لیری کے گھر پہنچا۔ یہ وہی پرانا جانا پہچانا گھر تھا؛ جس میں پچھلے پچیس سال سے امریکی سفارت کار رہتے تھے۔ میں نے لیری سے کہا ؛ امریکیوں میں ایک خوبی ہے کہ ہر افسر تبادلے پر اپنا گھر نہیں بدلتا۔ اس گھر کو میں پچیس برس سے جانتا ہوں۔
گھر کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ ٹیلی ویژن چینل اور ثقافتی اداروں کی کئی ایک شخصیات وہاں پہلے سے موجود تھیں۔ جیو ، دنیا اور دیگر چینلز کے مشہور اینکر اور پروڈیوسرز صوفوں پر بیٹھے تھے۔ فاطمہ جناح کالج کی وائس چانسلر ، نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی معروف شخصیات پہلے ہی موجود تھیں۔ کچھ دیر میں سڑک پر وی ائی پی سائرن بجنے کی آواز گونجی۔ لاتعداد اسپیشل پولیس اسکواڈ کی گاڑیاں جن میں سے کالے کپڑوں میں ملبوس اسپیشل پولیس اسکواڈ بھاری مشین گنوں اور اسلحہ کے ساتھ برامد ہوئے اور گھیرا ڈال لیا۔
میں قدرے پریشان تھا کہ یہ کیسی امریکن کوکیز ہیں جن پر مجھے مدعو کیا گیا ہے۔
لیری کے خاص مہمان کمر ے میں داخل ہوئے۔ امریکی سفیر Nancy Powell , Jonathan Pratt اور ایک خاتون۔ یہ سب لیری کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ ان کا رسمی تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ہندوستان میں امریکہ کے نئے سفیر ہیں۔ حال ہی میں نئی دلی میں ان کا تقرر ہوا ہے۔
ہماری درخواست پر یہ تینوں نئی دلی میں اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے صرف ایک دن کے لیے اسلام آباد رکے ہیں۔ آپ سب سے مشورہ کرنے۔ امریکی سرکار کی خواہش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوامی اور ثقافتی رابطے بحال کیے جائیں۔ ان دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے ، لوگ ایک ہیں ، تاریخ ایک ہے لہذا people to people contact کو فروغ دینا اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہمارے مقاصد میں شامل ہے۔ اس وجہ سے ہم نے آج آپ جیسی مقبول اور جانی پہچانی شخصیات کو مدعو کیا ہے۔ ہندوستان میں نامزد نئے سفیر آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔ یہ آپ کی رائے لینا چاہتے ہیں کہ کیا اقدام کیے جائیں کہ پاک و ہند کے عوامی اور ثقافتی روابط بڑھائے جا سکیں۔ ان دونوں ملکوں کو قریب سے قریب تر لایا جائے۔

سب سے پہلے جیو کا نمائندہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
" جناب عالی ہم تو اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔ ہمارا پروگرام "امن کی آشا" مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ ہماری کامیابی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں ہندوستان کی مشہور اور معروف فلمی شخصیت امیتابھ بچن نے پاکستانیوں سے بیس منٹ تک جیو ٹی وی سے خطاب کیا ہے۔ لیکن جناب ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے ہماری مالی امداد میں اضافہ کردیا جائے۔

فورا ہی دنیا ٹی وی والے بول اٹھے ، یہ international affairs پر نظر رکھنے والا شخص انتہائی دانشمندانہ طریقے سے بولا :
جناب عالی بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی اور امریکہ کی کہی ہوئی بات پر پاکستانی عوام تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدگمانی پیدا ہوتی ہے لہذا میری تجویز یہ ہے کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کو قریب لانے کی پالیسی کا اعلان یورپی یونین سےکروائیں۔ یورپی یونین کے دباو میں آ کر پاکستانی حکومت با آسانی اس پالیسی پر عمل کر سکے گی۔ پاکستانی عوام بھی اسے شک کی نگاہ سےنہیں دیکھیں گے۔ باقی رہا کام ترویج و تشہیر کا تو وہ دنیا ٹی وی با آسانی کر سکے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں اس کے لیے آپ سے مزید مالی امداد کی فوری ضرورت ہوگی۔

اسلام آباد کی ایک جانی پہچانی آرٹ گیلری کی سربراہ خاتون کہنے لگیں: ہم تو اس پروگرام پر پچھلے سال سے بھر پور عمل کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کی اہم شخصیات کے ایک گروہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ۔انہیں شہر شہر گھمایا ، مختلف لوگوں کے ساتھ میل ملاقاتیں ہوئیں۔ جنابِ عالی اس طرح ایسے ہی پروگراموں سے میری اور میرے ادارے کی کوششوں سے آپ کی پالیسی پروان چڑھے گی۔ رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آپ کے دیے ہوئے فنڈز ہمیں حکومت پاکستان سے لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ لہذا آپ سے درخواست ہے کہ ہماری مالی امداد براہ راست ہمیں دی جائے۔

میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک بہت ہی نامور ثقافتی شخصیت ، جو کئی ایک اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ڈائرکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے ، کہنے لگے:
جناب سب بجا ، لیکن ہمارے خیال میں پاکستانی عوام اور ہندوستانی عوام کو قریب لانے کا واحد موثر ذریعہ میڈیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مخصوص کام کے لیے ایک علیحدہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کھولنا چاہیے جو اس پروگرام کے لیے وقف ہو۔حضور یہ وہ کام ہے جو میں بذات خود بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ آپ مجھ پر اعتماد کریں آپ دیکھیں گے کہ کس قدر کم عرصہ میں دونوں ملکوں کے عوام کو جوڑ دوں گا۔ لیکن اس کام کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔
اس طرح ہر پاکستانی شخصیت نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن ہر ایک کی بات ایک ہی نکتے پر ختم ہوئی۔ امریکہ سے مالی امداد کی استدعا
میں چپ چاپ بیٹھا سب کی سنتا رہا اور کچھ نہ بولا۔ اتنے میں ہندوستان میں نامزد امریکی سفیر کی نگاہ مجھ پر ٹھہر گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے " سر ، آپ کی رائے سے ہم مستفید نہیں ہو سکے ، آپ بھی کچھ کہیں"
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
"یوئر ایکسیلنسی! مجھے تو لیری نے غیر رسمی طور پر امریکن کوکیز کی دعوت دی تھی ۔ میں تو کوکیز کھانے آیا تھا"
یہ سنتے ہی مسٹر پریٹ کو ایک بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ درمیان میں پڑی میز پر ایک بڑی پلیٹ ان کے ہاتھ میں تھی۔ اس پلیٹ کو لے کر وہ واپس پلٹے اور میرے سامنے پلیٹ کو بڑھاتے ہوئے بولے
" یہ سب کوکیز آپ ہی کے لیے ہیں ، شوق فرمائیں"
میں نے جواب دیا:
"میں امریکن کوکیز کا پچھلے پچیس برس سے شیدائی ہوں۔ لیکن انہیں کھا کھا کر مجھے شوگر کی بیماری لگ گئی ہے۔ لہذا معذرت سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کوکیز میرے آگے نہ رکھی جائیں"
سفیر صاحب نے پلیٹ واپس رکھتے ہوئے کہا:
"مہربانی فرما کر اپنی قیمتی رائے کا اظہار تو کریں"
میں نے کہا: "جناب یہاں عالم فاضل لوگ بیٹھے ہیں ، میں تو ایک folklorist ہوں۔ آپ چاہیں تو ایک مختصر سی کہانی بیان کر سکتا ہوں"
بولے : " بے شک ، بے شک ، کہانی تو ہم بڑے شوق سے سنتے ہیں"
میں نے کہا:
سفیر صاحب یہ میرے دیس کی قدیم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سو میل دور کے فاصلے پر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ساتھی اور فوجیں حملہ آور سکندر اعظم کی منتظر تھیں۔ انہیں ہر صورت بیرونی حملہ آور سے اپنی سر زمین ، اپنے دیس کا تحفظ کرنا تھا۔ اسے بچانا تھا۔ اس دریا کے کنارے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ راجہ پورس نے ہر ممکن اپنا ملک اور ریاست بچانے کی کوشش کی لیکن سکندر اعظم کی اعلی قیادت اور مضبوط فوجوں کے آگے پورس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شکست خوردہ بادشاہ کو جب سکندر اعظم کے آگے پیش کیا گیا تو فاتح بادشاہ نے پوچھا:
"اب تم سے کیا سلوک کیا جائے؟"
پورس نے جواب دیا:
"جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے"
سکندر اعظم ایک ذہین اور دور اندیش فاتح تھا وہ پورس کی بات سمجھ گیا اور اسی وقت اس کی سرزمین اسے لوٹا دی۔ اس دن پورس سکندر کا بہت بڑا خیر خواہ اور حامی بن گیا۔
کہانی جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا:
"سفیر صاحب ہر چند کہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہم بہت چھوٹے ہیں۔ اس خیر سگالی کو ہم یقینا خوش آمدید کہیں گے اگر ہندوستان ہمارے ساتھ برابری کا رشتہ قائم کرے ۔ ہم سے وہی سلوک کرے جو سکندر نے پورس کے ساتھ کیا۔ لیکن جناب انہوں نے تو آج تک پاکستان کی جغرافیائی حقیقت اور اسے آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس کےوجود کو ماننا ہی نہیں چاہتے اور کسی اکھنڈ بھارت کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہمیں برابری دیں گے؟
میں نے کہا حضور یہ مشاورت اور میٹنگ جو آپ اسلام آباد میں کر رہے ہیں شاید اس کی افادیت اور ضرورت دہلی میں زیادہ ہو۔ یہ باتیں کہتے کہتے میں کچھ جذباتی سا ہوگیا۔
جناب! یہ جیو والوں کو بڑا ناز ہے کہ امن کی آشا کے تحت امیتابھ جیسی شخصیت پاکستانیوں سے بیس منٹ تک ہم کلام ہوئی۔ یہ پروگرام میری گنہگار آنکھں نے بھی دیکھا تھا لیکن اس وقت میرے دماغ نے یہ سوال بار بار دہرایا کہ کیا کوئی پاکستانی شخصیت بھی اس طرح کسی ہندوستانی چینل پر ایسے ہی ہم کلام ہوئی ہے یا یہ یک طرفہ ٹریفک ہے۔

"If i as Pakistani can not address Indian people through an Indian channel then Ameetab Bachan be damned. What business has he to talk to my nation when I am not given the chance on equal basis"
امریکی سفیر کو میری باتیں سن کر سانپ سونگھ گیا۔ لیکن پاکستانی ٹیلی ویژن کے نمائندے قدرے اضطراب میں بولے:
"حضور پاکستانی معاشرے میں دہشت گردی ہے ، انتہا پسندی ہے ،جارحیت ہے"
امریکی سفیر نے لقمہ دیا :
" ہاں ہاں ہم جانتے ہیں طالبان اور talibanisation ایک بڑا مسئلہ ہے"
میں نے فورا سفیر کی بات کاٹتے ہوئے کہا :
"جناب طالبان کی بات نہ کریں ، طالبان بھی damned ۔ ان کی فکر آپ کیوں کر رہے ہیں ، یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس سے ہم خود نبٹ لیں گے۔ آپ زحمت نہ کریں"
ہندوستان میں نامزد نیا سفیر اسی رات ہندوستان چلا گیا لیکن وہ دن اور آج کا دن پھر کسی امریکی سفیر نے مجھے امریکن کوکیز پر مدعو نہیں کیا۔

اتوار، 11 اگست، 2013

تشخیص

نبض دیکھی، زباں دیکھی،
آلہ لگا کر
بیٹے کی
سینے اور پیٹھ کی سنیں آوازیں
پھر ماتھے پر بل ڈالے
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
میری سمجھ سے باہر ہے!
البتہ کچھ ایسے لچھّن
دیکھ رہا ہوں
جو بیماری کے لچھّن ہیں
یا پھر ہیں وہ غلط دوا کے،
ابھی بتانا مشکل ہے۔

جن جن ڈاکٹر کو پہلے
بیٹے کو دکھلایا تھا،
ان کے نسخوں کا بنڈل
میں نے اٹھا کر ان سے پوچھا:
تو پھر؟
ہاتھوں کو جنبش دے کر
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
فی الحال آپ ایک ہفتے تک
دوا کھلانا بند کریں،
ایک دفعہ پھر بیٹے کو
مرے مطب میں لے کر آئیں۔

مطب سے جب ہم باہر نکلے
سڑکوں پر سنّاٹا تھا،
شاید
ہوا تھا کوئی ہنگامہ،
بسیں، ٹرامیں سبھی تھیں بند۔
فضا میں امونیا کی ترشی تھی۔
پھر اک بم پھٹتے ہی،
جواب میں ٹھائیں ٹھائیں کی
گونج اٹھی تھیں آوازیں۔
میرے منہ سے یہ نکلا:
لچھّن اچھے نہیں ہیں ہرگز!!
بیٹے نے کہا یہ جواباً:
بیماری یا غلط دوا کے،
وثوق سے کہنا مشکل !!!

(نومبر 1969)
جدید بنگالی شاعر
نیریندر ناتھ چکروتی
کے مجموعہ کلام "اُلنگور راجا" سے
ترجمہ: شبیر احمد

جمعرات، 1 اگست، 2013

راتیں سچی ہیں، دن جھوٹے ہیں


چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو پھر بھی میں اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا 
اِن کی لذت اور اذیت سے میں اپنا عہد نہیں توڑوں گا
تیز نظر نابیناؤں کی آبادی میں ،
کیا میں اپنے دھیان کی یہ پونجی بھی گنوا دوں
ہاں میرے خوابوں کو تمھاری صبحوں کی سرد اور سایہ گوں تعبیر 
اِن صبحوں نے شام کے ہاتھوں اب تک جتنے سورج بیچے 
وہ سب اک برفانی بھاپ کی چمکیلی اور چکر کھاتی گولائی تھے 
سو میرے خوابوں کی راتیں جلتی اور دہکتی راتیں
ایسی یخ بستہ تعبیر کے ہر دن سے اچھی ہیں اور سچی بھی ہیں
جس میں دھندلا چکر کھاتا چمکیلا پن چھ اطراف کا روگ بنا ہے
میرے اندھیرے بھی سچے ہیں
اور تمھارے روگ اُجالے بھی جھوٹے ہیں
راتیں سچی ، دن جھوٹے 
جب تک دن جھوٹے ہیں جب تک
راتیں سہنا اور اپنے خوابوں میں رہنا
خوابوں کو بہانے والے دن کے اجالے سے اچھے ہے
ہاں میں بہکاؤں کی دھند سے اڑھوں گا 
چاہے تم میری بینائی کھرچ ڈالو میں پھر بھی اپنے خواب نہیں چھوڑوں گا
اپنا عہد نہیں توڑوں گا
یہی تو بس میرا سب کچھ ہے
ماہ و سال کے غارت گر سے میری ٹھنی ہے
میری جان پر آن بنی ہے
چاہے کچھ ہو میرے آخری سانس تلک اب چاہے کچھ ہو

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔