پیر، 29 اپریل، 2013

رخصت

ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی
ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی
اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں
نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!
میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں
اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں
ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے
رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے
آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں
اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر آتا ہے
آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات
اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے
میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں
اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!
گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات
اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات
نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں
سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات
رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی
تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!
میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی
اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی
سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!
پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی
کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب
اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی
وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں
افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی
میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا
فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا
تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی
پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا
گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری
عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!
ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس
اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس
مجھ سا کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں
مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس
مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے
دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس
بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی
تو جانتی ہے ورنہ وفا دار ہوں میں بھی!
ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت
اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت
ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر
اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت
تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی
یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی
مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں
تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں
کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں
آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں
"او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ" 
تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!
اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ
مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!

اتوار، 28 اپریل، 2013

چند اشعار از صابر علی صابر

من چوں پٹ کے پکدا بوٹا
لا بیٹھا واں شک دا بوٹا
جِتھے صابر بندا نپیا
اوتھے اُگیا اَک دا بوٹا

---------
تارے کھا کھا پِھٹیاں راتاں
تاں نیں دن توں چِٹیاں راتاں
سورج نئیں، میں قلم وکھائی
دو دو ہتھی پِٹیاں راتاں

---------
پَویں پُردا ریندا واں
فِر وی تُردا ریندا واں
اتھرو چَکھ کے ویکھے نیں
لوں ناں کھردا ریندا واں

ہفتہ، 27 اپریل، 2013

مائے نی مائے!

مائے نی مائے!
میرے گیتاں دے نیناں وچ
برہوں دی رڑک پوے
ادھی ادھی راتیں
اٹھ رون موئے متراں نوں
مائے سانوں نیند نہ پوے

بھیں بھیں ، سگندھیاں وچ
بنھاں پھہے چاننی دے
تاں وی ساڈی پیڑ نہ سہوے
کوسے کوسے ساہاں دی
میں کراں جے ٹکورمائے
سگوں سانوں کھان نوں پوے

آپے نی میں بالڑی
میں حالے آپ متاں جوگی
مت کہڑا ایس نوں دوے؟
آکھ سونی مائے ایہنوں
رووے بلھ چتھ کے نی
جگ کتے سن نہ لوے

آکھ سونی کھالئے ٹک
ہجراں دا پکیا
لیکھاں دے نی پٹھڑے توے
چٹ لئے تریل لونی
غماں دے گلاب توں نی
کالجے نوں حوصلا رہوے

کہڑیاں سپیریاں توں
منگاں کنج میل دی میں
میل دی کوئی کنج دوے
کہڑا ایہناں دماں دیاں
لوبھیاں دے دراں اتے
وانگ کھڑا جوگیاں رہوے

پیڑے نی پیڑے
ایہ پیار ایسی تتلی ہے
جہڑی سدا سول تے بہوے
پیار ایسا بھورہے نی
جہدے کولوں واشنا وی
لکھاں کوہاں دور ہی رہوے

پیار اوہ محل ہے نی
جہدے چ پکھیروواں دے
باجھ کجھ ہور نہ رہوے
پیار ایسا آلھنا ہے
جہدے چ نی وصلاں دا
رتڑا نہ پلنگ ڈہوے

آکھ مائے ، ادھی ادھی راتیں
موئے متراں دے
اُچی اُچی ناں نہ لوے
متے ساڈے مویاں پچھوں
جگ ایہ شریکڑانی
گیتاں نوں وی چندرا کہوے

مائے نی مائے
میرے گیتاں دے نیناں وچ
برہوں دی رڑک پوے
ادھی ادھی راتیں
اٹھ رون موئے متراں نوں
مائے سانوں نیند نہ پوے

منگل، 23 اپریل، 2013

شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے

شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا میری فصل ہو چُکی کیا میرے دن گُزر گئے

راہگُزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کے گردباد میں جانے کہاں بکھر گئے

شام ہے کتنی بے تپاک شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے

آج کی شام ہے عجیب کوئی نہیں میرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے آج سب اپنے گھر گئے

رونقِ بزمِ زندگی طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی نہ آئے تھے، گئے تو رُوٹھ کر گئے

خوش نفسانِ بےنوا، بے خبرانِ خوش ادا
تِیرہ نصیب تھے مگر شہر میں نام کر گئے

آپ میں جون ایلیا سوچئے اب دھرا ہے کیا
آپ بھی اب سدھاریے آپ کے چارہ گر گئے

اتوار، 21 اپریل، 2013

تعلق رکھ لیا باقی ، تیّقن توڑ آیا ہوں

تعلق رکھ لیا باقی ،  تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں

محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں

اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں

کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں

ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا

ضبط کر کے ہنسی کو بُھول گیا
میں تو اُس زخم ہی کو بُھول گیا

ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بُھول گیا

صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اُسے شام ہی کو بُھول گیا

عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہِ وابستگی کو بُھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اِسی کو بُھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بُھول گیا

سب سے پُراَمن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بُھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہرغِم زندگی کو بُھول گیا

خواب  ہا  خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بُھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اِک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بُھول گیا

سوچ کر اُس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بُھول گیا

سب بُرے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بَھلا تھا اُسی کو بُھول گیا

اُن سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فُرصتی کو بُھول گیا

بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بُھول گیا

اُس نے گویا مُجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اُسی کو بُھول گیا

یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مُچ سبھی کو بُھول گیا

آخری بُت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بُت شکن بُت گری کو بُھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بُھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جون
اپنی ایذا دہی کو بُھول گیا

جمعہ، 19 اپریل، 2013

اسمبلی ٹُٹّن والی اے

سُکھاں نے ہڑتال اے کیتی

تَرنا دِتّا دُکّھاں نیں

سُوچاں نیں اے ریلی کڈی

جلسہ کیتا اے پُکّھاں نیں

سَاوَاں ہتھوں سمجھوں ہُن

حکومت چُھٹن والی اے

صدراں والی صابرؔ یار

اسمبلی ٹُٹّن والی اے

یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے

یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے 
یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے 

کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے 

میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں 
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے 

وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے 

یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں 
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے 

وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے 

میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضر ر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے 

جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں 
یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے 

بدھ، 17 اپریل، 2013

اک دے مگر سی چوکھے لگے


اک دے مگر سی چوکھے لگے
جان بچاون لئ او پجا
وا وا پجا
چوکھا پجا
پر اوناں پِچھا نا چھڈیا
آخر بے وس ھو کے اونیں
لتاں دے وچ پونچھل لے کے
ماڑے ھون دا ترلا پایا
سارے اونوں چھڈ کے ٹر گۓ
پر جے اوتھے ۔ ۔ ۔ 
کتیاں دی تھا بندے ہندے ۔ ۔ ۔ فیر کیہ ہندا؟؟

صابر علی صابر


اب یہ سوچوں تو بھنورذہن میں پڑجاتے ہیں

اب یہ سوچوں تو بھنورذہن میں پڑجاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں

کیوںترے درد کو دیں تہمتِ ویرانی دل؟
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑجاتے ہیں

موسم درد میں اک دل بچاؤں کیسے
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں

سوچ کا آئینہ دھندلاہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں

شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دیئے تند ہواوٗں سے بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں

یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے

یارو! نگہ یار کو، یاروں سے گِلہ ہے 
خونیں جگروں، سینہ فگاروں سے گِلہ ہے 

جاں سے بھی گئے، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی 
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گِلہ ہے 

اب وصل ہو یا ہجر، نہ اب تک بسر آیا 
اِک لمحہ، جسے لمحہ شماروں سے گِلہ ہے

اُڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی 
صحراؤں کو  پُرشور دیاروں سے گِلہ ہے

بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں
بیکار ہوں اور کارگزاروں سے گِلہ ہے

میں آس کی بستی میں گیا تھا سو یہ پایا
جو بھی ہے اُسے اپنے سہاروں سے گِلہ ہے

بے فصل اِشاروں سے ہوا خون جنوں کا
اُن شوخ نگاہوں کے اِشاروں سے گِلہ ہے

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا

ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا
زخم خوردہ بےقراری کو، قرار آیا تو کیا

زندگی کی دھوپ میں مُرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابرِ بہار آیا تو کیا

میرے تیور بُجھ گئے، میری نگاہیں جَل گئیں
اب کوئی آئینہ رُو، آئینہ دار آیا تو کیا

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ  مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

اب مجھے خود اپنی بانہوں پر نہیں ہے اختیار
ہاتھ پھیلائے کوئی بےاختیار آیا تو کیا

وہ تو اب بھی خواب ہے، بیدار بینائی کا خواب
زندگی میں خواب میں اس کو گُزار آیا تو کیا

ہم یہاں بیگانہ ہیں سو ہم میں سے جون ایلیا
کوئی جیت آیا تو یہاں اور کوئی ہار آیا تو کیا

جمعہ، 12 اپریل، 2013

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ

بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ

پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر
مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ

قیمت نہ لگا جذب ایثارِ طلب کی
ہر شے کو فقط چشمِ خریدار سے مت دیکھ

پھر تجربہ مرگ سے مت کر مجھے دوچار
میں ہجر زدہ ہوں مجھے اس پیار سے مت دیکھ

میں اور کہیں صاف دکھائی نہیں دوں گا
ہٹ کر مجھے آئینہ اشعار سے مت دیکھ

گر دھوپ میں چلنا ہے تو اس شجر طلب کو
کاغذ پہ اگائے ہوئے اشجار سے مت دیکھ

اتنا تو بھرم زخمِ شناسائی کا رکھ لے
ہنس کر مری جانب صفِ اغیار سے مت دیکھ 


جمعرات، 11 اپریل، 2013

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے

دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے

اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے

اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے

سلب بینائی کے احکام ملے ہیں جو کبھی
روشنی چھونے کی خواہش کوئی شب زاد کرے

سوچ رکھنا بھی جرائم میں ہے شامل اب تو
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے

جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے

اس کی مٹھی میں بہت روز رہا میرا وجود
میرے ساحر سے کہو اب مجھے آزاد کرے

منگل، 9 اپریل، 2013

ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا


ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے! تجھے کِس بات پہ رونا آیا

کیسے جیتے ہیں یہ، کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا

جی نہیں آپ سے کیا شکایت ہو گی
ہاں، مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا

حسنِ مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر اُن کو بھی کسی بات پہ رونا آیا

کیسے مر مر کے گُزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر، تاروں بھری رات پہ رونا آیا

کتنے بیتاب تھے رِم جِھم میں پِئیں گے لیکن
آئی برسات، تو برسات پہ رونا آیا

حُسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا

کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے، کیا میری کسی بات پہ رونا آیا

اوّل اوّل تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو مُلاقات پہ رونا آیا

سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گُزرا ہے
جانے کیا بات تھی، ہر بات پہ رونا آیا

پیر، 8 اپریل، 2013

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

ہر زخم جگر داورمحشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینہ کو لپکا ہےپریشان نظری کا

آمد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا

ہفتہ، 6 اپریل، 2013

دل سے تری نگاہ جگر میں اتر گئی

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذتِ فراغ
تکلیف پردہ داری زخمِ جگر گئی

وہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوس بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبی اندازِ نقشِ پا
موجِ خرام یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بو‌ل ہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی


مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔